الادب المفرد - حدیث 1105

كِتَابُ بَابُ مَنْ سَلَّمَ عَلَى الذِّمِّيِّ إِشَارَةً حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا هَمَّامٌ قَالَ: حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ قَالَ: مَرَّ يَهُودِيٌّ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: السَّامُ عَلَيْكُمْ، فَرَدَّ أَصْحَابُهُ السَّلَامَ، فَقَالَ: " قَالَ: السَّامُ عَلَيْكُمْ "، فَأُخِذَ الْيَهُودِيُّ فَاعْتَرَفَ، قَالَ: ((رُدُّوا عَلَيْهِ مَا قَالَ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1105

کتاب ذمی کو اشارے سے سلام کرنا سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ ایک یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا:السام علیکم (تمہیں موت آئے) صحابہ کرام نے سلام کا جواب دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس نے تو السام علیکم کہا ہے۔‘‘ یہودی کو پکڑا گیا تو اس نے اعتراف کرلیا۔ آپ نے فرمایا:’’تم بھی اس کے جواب میں ایسے ہی کہو۔‘‘
تشریح : مطلب یہ ہے کہ سلام میں پہل کرنا ناجائز ہے، تاہم اشارے سے یہ کہنا کہ کیا حال ہے وغیرہ جائز ہے۔ دوسری روایت سے معلوم ہوا کہ کافروں کے سلام کا جواب بھی سوچ سمجھ کر دینا چاہیے کہ جو وہ کہیں وہی انہیں لوٹا دینا چاہیے۔
تخریج : صحیح:أخرجه الترمذي، کتاب تفسیر القرآن:۳۳۰۱۔ ومسلم:۲۱۶۳۔ وأبي داود:۵۲۰۷۔ والنسائي في الکبریٰ:۱۰۱۴۷۔ وابن ماجة:۳۶۹۷۔ مختصرًا۔ مطلب یہ ہے کہ سلام میں پہل کرنا ناجائز ہے، تاہم اشارے سے یہ کہنا کہ کیا حال ہے وغیرہ جائز ہے۔ دوسری روایت سے معلوم ہوا کہ کافروں کے سلام کا جواب بھی سوچ سمجھ کر دینا چاہیے کہ جو وہ کہیں وہی انہیں لوٹا دینا چاہیے۔