الادب المفرد - حدیث 11

كِتَابُ بَابُ جَزَاءِ الْوَالِدَيْنِ حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي بُرْدَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، أَنَّهُ شَهِدَ ابْنَ عُمَرَ وَرَجُلٌ يَمَانِيٌّ يَطُوفُ بِالْبَيْتِ، حَمَلَ أُمَّهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ، يَقُولُ: إِنِّي لَهَا بَعِيرُهَا الْمُذَلَّلُ ... إِنْ أُذْعِرَتْ رِكَابُهَا لَمْ أُذْعَرِ. ثُمَّ قَالَ: يَا ابْنَ عُمَرَ أَتُرَانِي جَزَيْتُهَا؟ قَالَ: لَا، وَلَا بِزَفْرَةٍ وَاحِدَةٍ الْمَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قَالَ: يَا ابْنَ أَبِي مُوسَى، إِنَّ كُلَّ رَكْعَتَيْنِ تُكَفِّرَانِ مَا أَمَامَهُمَا

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 11

کتاب والدین کے احسان کا بدلہ دینے کا بیان سعید بن ابو بردہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یمن کے ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ بیت اللہ کا طواف کر رہا ہے اور اس نے اپنی والدہ کو کمر پر اٹھا رکھا ہے اور یہ اشعار پڑھ رہا ہے: میں اپنی ماں کے لیے سدھایا ہوا اونٹ ہوں اگر اس کی سواریوں کو خوف زدہ کیا جائے تو میں خوف زدہ نہیں ہوں گا۔ پھر اس نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کا کیا خیال ہے کہ میں نے اپنی والدہ کا بدلہ چکا دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں اس (کی زچگی)کے ایک سانس کا بھی نہیں۔ پھر ابن عمر رضی اللہ عنہ نے طواف کیا اور مقام ابراہیم پر آکر دو رکعتیں ادا کیں اور فرمایا: اے ابو موسیٰ کے بیٹے! ہر دو رکعتیں ماقبل کیے ہوئے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں۔
تشریح : (۱)اس حدیث سے بوڑھے شخص کا حج کرنا ثابت ہوتا ہے اگرچہ وہ خود چل پھر نہ سکتا ہو۔ اور سواری وغیرہ پر طواف کرنے کا جواز بھی معلوم ہوا۔ (۲) اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان والدین کی کتنی ہی زیادہ خدمت کرے ان کا حق ادا نہیں کرسکتا بالخصوص والدہ کا جو اولاد کی خاطر کئی بار موت کے منہ سے واپس آتی ہے۔ اس میں والدین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ حسن سلوک کی ترغیب ہے اور یہ کہ بندے کو اس بات کا حریص ہونا چاہیے کہ والدین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اچھا برتاؤ کرے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یمنی کو بتایا کہ ولادت کے وقت ماں کو جس مشقت سے گزرنا پڑتا ہے تونے ابھی تک تو اس کے ایک سانس کا بدلہ بھی نہیں دیا۔ (۳) شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ماں کے اجر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک عورت کو کسی بچے کو جنم دینے کا کتنا بڑا اجر ملتا ہے۔ اس لیے خواتین کو یہ اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی سے گریز کرنا چاہیے۔ (۴) مقام ابراہیم پر ابن عمر رضی اللہ عنہما کے نماز پڑھنے اور فضیلت بتانے سے نفل نماز کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز جس طرح قرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے اسی طرح گناہوں کے کفارے کی سب سے عمدہ صورت بھی ہے۔
تخریج : صحیح: أخرجه المروزي فی البر والصلة: ۳۷۔ والفاکهي فی أخبار مکة: ۶۴۲۔ وأبن أبي الدنیا فی مکارم الاخلاق: ۲۳۵۔ والبیهقي فی شعب الأیمان: ۷۹۲۶۔ (۱)اس حدیث سے بوڑھے شخص کا حج کرنا ثابت ہوتا ہے اگرچہ وہ خود چل پھر نہ سکتا ہو۔ اور سواری وغیرہ پر طواف کرنے کا جواز بھی معلوم ہوا۔ (۲) اس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انسان والدین کی کتنی ہی زیادہ خدمت کرے ان کا حق ادا نہیں کرسکتا بالخصوص والدہ کا جو اولاد کی خاطر کئی بار موت کے منہ سے واپس آتی ہے۔ اس میں والدین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ حسن سلوک کی ترغیب ہے اور یہ کہ بندے کو اس بات کا حریص ہونا چاہیے کہ والدین کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اچھا برتاؤ کرے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یمنی کو بتایا کہ ولادت کے وقت ماں کو جس مشقت سے گزرنا پڑتا ہے تونے ابھی تک تو اس کے ایک سانس کا بدلہ بھی نہیں دیا۔ (۳) شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ماں کے اجر کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ایک عورت کو کسی بچے کو جنم دینے کا کتنا بڑا اجر ملتا ہے۔ اس لیے خواتین کو یہ اجر و ثواب حاصل کرنے کے لیے منصوبہ بندی سے گریز کرنا چاہیے۔ (۴) مقام ابراہیم پر ابن عمر رضی اللہ عنہما کے نماز پڑھنے اور فضیلت بتانے سے نفل نماز کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ نماز جس طرح قرب الٰہی کے حصول کا ذریعہ ہے اسی طرح گناہوں کے کفارے کی سب سے عمدہ صورت بھی ہے۔