الادب المفرد - حدیث 109

كِتَابُ بَابُ الْأَدْنَى فَالْأَدْنَى مِنَ الْجِيرَانِ حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ حُرَيْثٍ قَالَ: حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بْنُ مُوسَى، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ الْحَسَنِ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الْجَارِ، فَقَالَ: أَرْبَعِينَ دَارًا أَمَامَهُ، وَأَرْبَعِينَ خَلْفَهُ، وَأَرْبَعِينَ عَنْ يَمِينِهِ، وَأَرْبَعِينَ عَنْ يَسَارِهِ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 109

کتاب پڑوسیوں کی قرب اور بعد کے اعتبار سے درجہ بندی کا بیان حسن بصری رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ ان سے ہمسائے کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:’’چالیس گھر سامنے، چالیس گھر پیچھے، چالیس گھر دائیں جانب اور چالیس گھر بائیں جانب (سب)پڑوسی ہیں۔‘‘
تشریح : (۱)جیران، جار کی جمع ہے جس کے معنی ہیں قریب رہنے والا۔ حسن بصری رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ پڑوس کا اطلاق چاروں طرف چالیس چالیس گھروں پر ہوتا ہے، یعنی ان کی خبر گیری کرنا اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا مسلمان کے لیے ضروری ہے، پھر ان میں سے جو جس قدر زیادہ قریب ہوگا وہ اسی قدر حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہوگا، یعنی جب پڑوسیوں کی تعداد زیادہ ہو تو پھر ادنی فالادنی قریب والا، اس کے بعد اس سے دور والے (جو بعد والوں کے لحاظ سے قریب اور پہلے کے لحاظ سے دور ہے)قاعدے پر عمل ہوگا۔ (۲) قرب اور بعد کی درجہ بندی انصاف کے منافي نہیں ہے کیونکہ انسان کے اندر یہ استطاعت نہیں ہے کہ وہ پورے ملک یا پورے شہر کے لوگوں کا خیال رکھے بالخصوص اس مادیت کے دور میں جبکہ مصروفیات بہت بڑھ گئی ہیں ایسا کرنا ممکن نہیں اس لیے شریعت نے معاشرتی نظام کو مربوط کرنے کے لیے یہ ہدایات دیں کہ ہر شخص اپنے گرد و نواح کا خیال رکھے۔ اس طرح بغیر کسی مشکل کے ایک خوبصورت اور ہمدرد معاشرہ قائم ہو جائے گا۔ حسن بصری رحمہ اللہ کے قول کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو معاشرے میں باہمی الفت کی بہترین فضا پیدا ہوسکتی ہے۔ (۳) حسن بصری رحمہ اللہ کے قول کا یہ مطلب نہیں کہ اس درجہ بندی کے بعد والے گھروں کے ساتھ ہمدردی یا حسن سلوک کی ضرورت نہیں بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ کم از کم انسان اس حد تک مجاورت کا لحاظ رکھے تاہم اگر کوئی اس سے زیادہ لوگوں کے ساتھ روابط رکھتا ہے اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے تو ایسا کرنا یقینا افضل ہوگا۔
تخریج : حسن۔ (۱)جیران، جار کی جمع ہے جس کے معنی ہیں قریب رہنے والا۔ حسن بصری رحمہ اللہ کا موقف یہ ہے کہ پڑوس کا اطلاق چاروں طرف چالیس چالیس گھروں پر ہوتا ہے، یعنی ان کی خبر گیری کرنا اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنا مسلمان کے لیے ضروری ہے، پھر ان میں سے جو جس قدر زیادہ قریب ہوگا وہ اسی قدر حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہوگا، یعنی جب پڑوسیوں کی تعداد زیادہ ہو تو پھر ادنی فالادنی قریب والا، اس کے بعد اس سے دور والے (جو بعد والوں کے لحاظ سے قریب اور پہلے کے لحاظ سے دور ہے)قاعدے پر عمل ہوگا۔ (۲) قرب اور بعد کی درجہ بندی انصاف کے منافي نہیں ہے کیونکہ انسان کے اندر یہ استطاعت نہیں ہے کہ وہ پورے ملک یا پورے شہر کے لوگوں کا خیال رکھے بالخصوص اس مادیت کے دور میں جبکہ مصروفیات بہت بڑھ گئی ہیں ایسا کرنا ممکن نہیں اس لیے شریعت نے معاشرتی نظام کو مربوط کرنے کے لیے یہ ہدایات دیں کہ ہر شخص اپنے گرد و نواح کا خیال رکھے۔ اس طرح بغیر کسی مشکل کے ایک خوبصورت اور ہمدرد معاشرہ قائم ہو جائے گا۔ حسن بصری رحمہ اللہ کے قول کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو معاشرے میں باہمی الفت کی بہترین فضا پیدا ہوسکتی ہے۔ (۳) حسن بصری رحمہ اللہ کے قول کا یہ مطلب نہیں کہ اس درجہ بندی کے بعد والے گھروں کے ساتھ ہمدردی یا حسن سلوک کی ضرورت نہیں بلکہ ان کا مقصد یہ ہے کہ کم از کم انسان اس حد تک مجاورت کا لحاظ رکھے تاہم اگر کوئی اس سے زیادہ لوگوں کے ساتھ روابط رکھتا ہے اور ان کی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہے تو ایسا کرنا یقینا افضل ہوگا۔