الادب المفرد - حدیث 1088

كِتَابُ بَابُ إِذَا اسْتَأْذَنَ فَقِيلَ: ادْخُلْ بِسَلَامٍ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ الْفَرَّاءِ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُدْعَانَ قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَاسْتَأْذَنَ عَلَى أَهْلِ بَيْتٍ، فَقِيلَ: ادْخُلْ بِسَلَامٍ، فَأَبَى أَنْ يَدْخُلَ عَلَيْهِمْ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1088

کتاب جب کسی نے اجازت مانگی اور اسے کہا گیا کہ سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ عبدالرحمن بن جدعان رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا۔ انہوں نے ایک گھر والوں سے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو جواب ملا:سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ۔ انہوں نے اندر جانے سے انکار کر دیا۔
تشریح : سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر بزرگ سے یہ ممکن نہیں کہ انہوں نے سلام نہ کہا ہو اس لیے انہیں یہ کہنا کہ سلام کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ، مذاق تھا۔ اس لیے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس چلے گئے۔ اس تاویل کی تائید مصنف ابن ابی شیبہ کے اثر سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جب اس طرح کہا جاتا کہ سلام کے ساتھ داخل ہوجا تو وہ واپس چلے جاتے اور فرماتے کہ مجھے معلوم نہیں کہ سلام کہنا ہے کہ نہیں۔ (المصنف لابن ابي شیبة:۸؍۶۴۷)
تخریج : صحیح:أخرجه عبدالرزاق:۱۹۴۳۰۔ وابن أبي شیبة:۲۵۸۳۲۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جیسے جلیل القدر بزرگ سے یہ ممکن نہیں کہ انہوں نے سلام نہ کہا ہو اس لیے انہیں یہ کہنا کہ سلام کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ، مذاق تھا۔ اس لیے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما واپس چلے گئے۔ اس تاویل کی تائید مصنف ابن ابی شیبہ کے اثر سے بھی ہوتی ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو جب اس طرح کہا جاتا کہ سلام کے ساتھ داخل ہوجا تو وہ واپس چلے جاتے اور فرماتے کہ مجھے معلوم نہیں کہ سلام کہنا ہے کہ نہیں۔ (المصنف لابن ابي شیبة:۸؍۶۴۷)