الادب المفرد - حدیث 1084

كِتَابُ بَابُ إِذَا قَالَ: أَدْخُلُ؟ وَلَمْ يُسَلِّمْ قَالَ: وَأَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَامِرٍ جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَأَلِجُ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْجَارِيَةِ: " اخْرُجِي فَقُولِي لَهُ: قُلِ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ فَإِنَّهُ لَمْ يُحْسِنِ الِاسْتِئْذَانَ "، قَالَ: فَسَمِعْتُهَا قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ إِلَيَّ الْجَارِيَةُ فَقُلْتُ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، أَأَدْخُلُ؟ فَقَالَ: ((وَعَلَيْكَ، ادْخُلْ)) ، قَالَ: فَدَخَلْتُ فَقُلْتُ: بِأَيِّ شَيْءٍ جِئْتَ؟ فَقَالَ: ((لَمْ آتِكُمْ إِلَّا بِخَيْرٍ، أَتَيْتُكُمْ لِتَعْبُدُوا اللَّهَ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَتَدَعُوا عِبَادَةَ اللَّاتِ وَالْعُزَّى، وَتُصَلُّوا فِي اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ، وَتَصُومُوا فِي السَّنَةِ شَهْرًا، وَتَحُجُّوا هَذَا الْبَيْتَ، وَتَأْخُذُوا مِنْ مَالِ أَغْنِيَائِكُمْ فَتَرُدُّوهَا عَلَى فُقَرَائِكُمْ)) ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: هَلْ مِنَ الْعِلْمِ شَيْءٌ لَا تَعْلَمُهُ؟ قَالَ: " لَقَدْ عَلَّمَ اللَّهُ خَيْرًا، وَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ، الْخَمْسُ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ: ﴿إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ، وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ، وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ، وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا، وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ﴾ [لقمان: 34] "

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1084

کتاب جب کسی نے اجازت طلب کی اور سلام نہ کہا بنو عامر کے ایک آدمی سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو کہا:کیا میں اندر آسکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لونڈی سے فرمایا:’’باہر جاؤ اور اسے کہو کہ یوں اجازت مانگے:السلام علیکم، کیا میں اندر آجاؤں؟ اسے اچھی طرح اجازت طلب کرنا نہیں آتی۔‘‘ وہ کہتے ہیں کہ میں نے لونڈی کے باہر نکلنے سے پہلے آپ کی بات سن لی اور کہا:السلام علیکم، کیا میں اندر آسکتا ہوں؟‘‘ آپ نے فرمایا:وعلیک، آجاؤ۔‘‘ میں داخل ہوا تو میں نے کہا:آپ (اللہ کی طرف سے)کیا چیز لائے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں تمہارے پاس خیر ہی خیر لایا ہوں، میں تمہارے پاس اس لیے آیا ہوں کہ اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کرو اور لات اور عزی کی عبادت چھوڑ دو، دن اور رات میں پانچ نمازیں پڑھو، سال میں ایک مہینے کے روزے رکھو، اس گھر (بیت اللہ)کا حج کرو اور اپنے مال دار لوگوں سے مال لے کر اپنے غریب لوگوں کو دو۔‘‘ وہ کہتے ہیں:میں نے عرض کیا:کیا علم میں سے کوئی ایسی چیز بھی ہے جسے آپ نہیں جانتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ ہی نے خیر کا علم عطا کیا ہے اور کئی علم کی باتیں ہیں جو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پانچ باتوں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ پھر یہ آیت تلاوت کی:اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی مینہ برساتا ہے، وہی جانتا ہے کہ رحم مادر میں کیا ہے، کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس زمین میں مرے گا۔‘‘
تشریح : (۱)ان روایات سے معلوم ہوا کہ پہلے سلام، پھر اجازت طلب کرنی چاہیے۔ اگر کوئی شخص اس کے برعکس کرے تو اسے احسن انداز سے تعلیم دینی چاہیے اور سلام سے پہلے اس سے گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔ (۲) دوسری روایت سے معلوم ہوا کہ ہر قسم کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جو علم عطا کیا آپ کو وہی علم تھا جس کا اظہار آپ نے اس حدیث میں فرمایا کہ ہر چیز کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے اور اس کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ خصوصاً پانچ چیزیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، پھر آپ نے استشہاد کے طور پر قرآن کی آیت پڑھی۔ (۳) انسان کو ہمیشہ عاجزی والا رویہ رکھنا چاہیے اور اپنی ہر خوبی کو اللہ کا فضل سمجھنا چاہیے اور اظہار کرتے وقت یہ کہنا چاہیے کہ تمام خوبیوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه أحمد:۲۳۱۲۷۔ وابن ابي شیبة:۹۳۶۔ وأخرجه شطره الاول أبي داود:۵۱۷۷۔ والنسائي في الکبریٰ:۱۰۰۷۵۔ انظر الصحیحة:۸۱۹۔ (۱)ان روایات سے معلوم ہوا کہ پہلے سلام، پھر اجازت طلب کرنی چاہیے۔ اگر کوئی شخص اس کے برعکس کرے تو اسے احسن انداز سے تعلیم دینی چاہیے اور سلام سے پہلے اس سے گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔ (۲) دوسری روایت سے معلوم ہوا کہ ہر قسم کا علم صرف اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے جو علم عطا کیا آپ کو وہی علم تھا جس کا اظہار آپ نے اس حدیث میں فرمایا کہ ہر چیز کا علم تو صرف اللہ کے پاس ہے اور اس کے علم کا کوئی احاطہ نہیں کرسکتا۔ خصوصاً پانچ چیزیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، پھر آپ نے استشہاد کے طور پر قرآن کی آیت پڑھی۔ (۳) انسان کو ہمیشہ عاجزی والا رویہ رکھنا چاہیے اور اپنی ہر خوبی کو اللہ کا فضل سمجھنا چاہیے اور اظہار کرتے وقت یہ کہنا چاہیے کہ تمام خوبیوں کا مالک اللہ تعالیٰ ہے۔