الادب المفرد - حدیث 1080

كِتَابُ بَابُ قَرْعِ الْبَابِ حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُطَّلِبُ بْنُ زِيَادٍ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَصْبَهَانِيُّ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مَالِكِ بْنِ الْمُنْتَصِرِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ: إِنَّ أَبْوَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَتْ تُقْرَعُ بِالْأَظَافِيرِ

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 1080

کتاب دروازہ کھٹکھٹانے کا بیان حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے ناخنوں سے کھٹکھٹائے جاتے تھے۔
تشریح : (۱)دروازے کھٹکھٹانے کا مقصد گھر والوں کو مطلع کرنا ہے نہ کہ انہیں ڈرانا اور بدکانا ہے۔ اس لیے دروازہ آہستہ سے کھٹکھٹانا چاہیے۔ بیل بجائے جانا یا زور زور سے دروازے پر دستک دینا خلاف ادب ہے، خصوصاً کسی معزز شخصیت کے ادب و احترام کا تقاضا ہے کہ دروازہ زور سے نہ پیٹا جائے۔ (۲) دروازہ کھٹکھٹانا بھی اجازت لینے کی طرح ہے اس لیے تین بار دستک دینے کے بعد انتظار کرنا چاہیے۔ جواب نہ ملے تو واپس چلے جانا چاہیے۔ (۳) گھر کی حویلی بڑی اور گیٹ رہائش سے دور ہو تو قدرے زور سے دستک دینے میں کوئی حرج نہیں۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري في التاریخ الکبیر:۱؍ ۲۲۸۔ والبیهقي في شعب الایمان:۱۵۳۰۔ والمزي في تهذیب الکمال:۲۶؍۳۵۰۔ انظر الصحیحة:۲۰۹۲۔ (۱)دروازے کھٹکھٹانے کا مقصد گھر والوں کو مطلع کرنا ہے نہ کہ انہیں ڈرانا اور بدکانا ہے۔ اس لیے دروازہ آہستہ سے کھٹکھٹانا چاہیے۔ بیل بجائے جانا یا زور زور سے دروازے پر دستک دینا خلاف ادب ہے، خصوصاً کسی معزز شخصیت کے ادب و احترام کا تقاضا ہے کہ دروازہ زور سے نہ پیٹا جائے۔ (۲) دروازہ کھٹکھٹانا بھی اجازت لینے کی طرح ہے اس لیے تین بار دستک دینے کے بعد انتظار کرنا چاہیے۔ جواب نہ ملے تو واپس چلے جانا چاہیے۔ (۳) گھر کی حویلی بڑی اور گیٹ رہائش سے دور ہو تو قدرے زور سے دستک دینے میں کوئی حرج نہیں۔