الادب المفرد - حدیث 105

كِتَابُ بَابُ يَبْدَأُ بِالْجَارِ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَّامٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ شَابُورَ، وَأَبِي إِسْمَاعِيلَ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّهُ ذُبِحَتْ لَهُ شَاةٌ، فَجَعَلَ يَقُولُ لِغُلَامِهِ: أَهْدَيْتَ لِجَارِنَا الْيَهُودِيِّ؟ أَهْدَيْتَ لِجَارِنَا الْيَهُودِيِّ؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((مَا زَالَ جِبْرِيلُ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 105

کتاب (حسن سلوک یا عطیے میں)پڑوسی سے ابتدا کرنے کا بیان حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان کے لیے ایک بکری ذبح کی گئی تو وہ اپنے غلام سے کہنے لگے:کیا تونے ہمارے یہودی ہمسائے کو کچھ (گوشت)بھیجا ہے؟ کیا تونے یہودی پڑوسی کو کچھ ہدیہ بھیجا ہے؟ (پھر کہنے لگے!)میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے:’’جبریل مجھے پڑوسی کے بارے میں برابر وصیت کرتے رہے حتی کہ مجھے خیال گزرا کہ عن قریب اسے وارث بنا دیں گے۔‘‘
تشریح : (۱)’’یہودی ہمسائے‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ کافروں کے پڑوس میں رہنا جائز ہے۔ بشرطیکہ ایمان کو خطرہ نہ ہو اور انسان دینی اور اخلاقی طور پر مضبوط ہو۔ (۲) مسلمانوں کو آپس میں تحائف کا تبادلہ کرنے کا حکم ہے تاکہ باہمی محبت میں اضافہ ہو، تاہم اس حدیث کے عموم کے تحت کفار کے ساتھ باہمی ہدیوں کا تبادلہ بھی جائز ہے جبکہ مسلمان کو ان کے عقائد سے نفرت ہو اور وہ کافر سے دلی طور پر محبت نہ رکھتا ہو کیونکہ مسلمان کی محبت اور عداوت کا معیار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کفار کے ساتھ میل جول بالخصوص جبکہ وہ ہمسایہ ہو انسانیت کی بنیاد پر جائز بلکہ مستحب ہے۔ کافر پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک اسے اسلام کی طرف راغب کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہم مسلمان پڑوسیوں کا خیال نہیں رکھتے کفار کا خیال رکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ (۳) گوشت کھانے اور ہدیہ وغیرہ دینے کے لیے جانور ذبح کرنا تقویٰ اور زہد کے خلاف نہیں ہے اور نہ یہ فضول خرچی ہی ہے کیونکہ صحابی رسول کا ایسا کرنا ناممکن ہے۔ اس سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو گوشت خوری کو ناجائز کہتے ہیں۔ (۴) جب کافر پڑوسیوں کو بطور ہدیہ گوشت بھیجنا جائز ہے تو ان سے گوشت کا ہدیہ قبول کرنا بھی جائز ہوگا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اہل کتاب کا ذبیحہ جائز ہے، تاہم اگر وہ سور وغیرہ حرام گوشت کھاتے ہیں تو پھر تصدیق کیے بغیر کہ یہ حلال جانور کا ہے، قبول کرنا ناجائز ہوگا۔ (۵) جب کافر ہمسایوں کو ہدیہ دینا جائز ہے تو کافر رشتہ داروں کو ہدیہ دینا بالاولیٰ جائز ہوگا کیونکہ وہ دوسروں سے بہرحال مقدم ہیں لیکن یاد رہے کہ وہ وراثت کے حق دار نہیں ہوں گے اور نہ ہی مسلمان کافر کا وارث ہو گا۔
تخریج : صحیح:أخرجه أبي داود، الأدب، باب في حق الجوار:۵۱۵۲۔ والترمذي:۱۹۴۳۔ الإرواء:۸۹۱۔ (۱)’’یہودی ہمسائے‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ کافروں کے پڑوس میں رہنا جائز ہے۔ بشرطیکہ ایمان کو خطرہ نہ ہو اور انسان دینی اور اخلاقی طور پر مضبوط ہو۔ (۲) مسلمانوں کو آپس میں تحائف کا تبادلہ کرنے کا حکم ہے تاکہ باہمی محبت میں اضافہ ہو، تاہم اس حدیث کے عموم کے تحت کفار کے ساتھ باہمی ہدیوں کا تبادلہ بھی جائز ہے جبکہ مسلمان کو ان کے عقائد سے نفرت ہو اور وہ کافر سے دلی طور پر محبت نہ رکھتا ہو کیونکہ مسلمان کی محبت اور عداوت کا معیار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ کفار کے ساتھ میل جول بالخصوص جبکہ وہ ہمسایہ ہو انسانیت کی بنیاد پر جائز بلکہ مستحب ہے۔ کافر پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک اسے اسلام کی طرف راغب کرنے کا بہت بڑا ذریعہ ہے لیکن قابل افسوس امر یہ ہے کہ ہم مسلمان پڑوسیوں کا خیال نہیں رکھتے کفار کا خیال رکھنا تو بہت دور کی بات ہے۔ (۳) گوشت کھانے اور ہدیہ وغیرہ دینے کے لیے جانور ذبح کرنا تقویٰ اور زہد کے خلاف نہیں ہے اور نہ یہ فضول خرچی ہی ہے کیونکہ صحابی رسول کا ایسا کرنا ناممکن ہے۔ اس سے ان لوگوں کا رد ہوتا ہے جو گوشت خوری کو ناجائز کہتے ہیں۔ (۴) جب کافر پڑوسیوں کو بطور ہدیہ گوشت بھیجنا جائز ہے تو ان سے گوشت کا ہدیہ قبول کرنا بھی جائز ہوگا جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اہل کتاب کا ذبیحہ جائز ہے، تاہم اگر وہ سور وغیرہ حرام گوشت کھاتے ہیں تو پھر تصدیق کیے بغیر کہ یہ حلال جانور کا ہے، قبول کرنا ناجائز ہوگا۔ (۵) جب کافر ہمسایوں کو ہدیہ دینا جائز ہے تو کافر رشتہ داروں کو ہدیہ دینا بالاولیٰ جائز ہوگا کیونکہ وہ دوسروں سے بہرحال مقدم ہیں لیکن یاد رہے کہ وہ وراثت کے حق دار نہیں ہوں گے اور نہ ہی مسلمان کافر کا وارث ہو گا۔