الادب المفرد - حدیث 103

كِتَابُ بَابُ حَقِّ الْجَارِ حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حُمَيْدٍ قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ظَبْيَةَ الْكَلَاعِيَّ قَالَ: سَمِعْتُ الْمِقْدَادَ بْنَ الْأَسْوَدِ يَقُولُ: سَأَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَصْحَابَهُ عَنِ الزِّنَا؟ قَالُوا: حَرَامٌ، حَرَّمَهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، فَقَالَ: ((لِأَنْ يَزْنِيَ الرَّجُلُ بِعَشْرِ نِسْوَةٍ، أَيْسَرُ عَلَيْهِ مِنْ أَنْ يَزْنِيَ بِامْرَأَةِ جَارِهِ)) ، وَسَأَلَهُمْ عَنِ السَّرِقَةِ؟ قَالُوا: حَرَامٌ، حَرَّمَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَرَسُولُهُ، فَقَالَ: ((لِأَنْ يَسْرِقَ مِنْ عَشَرَةِ أَهْلِ أَبْيَاتٍ، أَيْسَرُ عَلَيْهِ مِنْ أَنْ يَسْرِقَ مِنْ بَيْتِ جَارِهِ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 103

کتاب ہمسائے کے حقوق حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے زنا کی (شناعت کی)بابت پوچھا۔ انہوں نے کہا:حرام ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے۔ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کوئی آدمی اگر دس عورتوں سے زنا کرے اس کا اتنا گناہ نہیں جتنا اپنے ہمسائے کی کسی عورت سے بدکاری کا گناہ ہے۔‘‘ پھر آپ نے ان سے چوری کی بابت دریافت کیا۔ انہوں نے کہا:چوری حرام ہے، اسے اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہے۔ آپ نے فرمایا:’’کوئی آدمی دس گھروں سے چوری کرے اس کا وبال ہمسائے کے کسی ایک گھر سے چوری کرنے سے کم ہے (اور اس کا گناہ زیادہ ہے)۔‘‘
تشریح : (۱)اس روایت سے معلوم ہوا کہ گناہ کی قباحت بعض اوقات جگہ اور افراد کے لحاظ سے بڑھ جاتی ہے۔ زنا کبیرہ گناہ ہے لیکن اس وقت یہ اکبر الکبائر بن جاتا ہے جب ہمسائے کی کسی عورت سے کیا جائے اور اس سے بھی قبیح ہو جاتا ہے جب کسی محرم خاتون (بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ)سے کیا جائے۔ (۲) پڑوسی کا معاملہ دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ اجنبی آدمی کے بارے میں انسان محتاط رہتا ہے اور اجنبی بھی ایسی جرأت کرتے ہوئے ڈرتا ہے لیکن پڑوسی پر چونکہ اعتماد ہوتا ہے اور وہ اس اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے حالانکہ اسے بہ حیثیت پڑوسی ہمسائے کی ناموس کی حفاظت کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے اس کا گناہ دس گنا زیادہ قرار دیا۔ ایک حدیث میں شرک اور والدین کی گستاخی کے بعد اسے سب سے بڑا گناہ کہا گیا ہے۔ (۳) بعض روایات میں (یزنی)کے بجائے (تزانی)کے الفاظ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ صرف زنا کرتا ہے بلکہ ہمسائے کی بیوی کے ساتھ اس طرح تعلقات بناتا ہے کہ وہ دونوں رضا مندی سے اس معصیت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ گویا اس طرح وہ ہمسائے کی بیوی کو اپنی طرف مائل کرکے اس کا گھر بھی برباد کرتا ہے۔ اگرچہ یہاں بیوی کا ذکر ہے۔ (۴) اس سے معلوم ہوا جہاں اعتماد ہو، انسان کا آنا جانا ہو یا کوئی شخص کسی کے گھر کام کرتا ہو تو اسے بدکرداری سے دور رہنا چاہیے کیونکہ ایسی جگہ بدکاری سے گناہ دس گنا شدید ہو جائے گا۔ (۵) حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی امتی کو کسی چیز کو حلال و حرام قرار دینے کا اختیار ہرگز نہیں ہے۔ (۶) معاشرتی طور پر یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اکثر لوگ پڑوسیوں کے معاملے میں نہایت غیر محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے گھر بلا تکلف آنا جانا، خواتین کا پردہ نہ کرنا، مردو زن کا اختلاط ایسے عوامل ہیں جو بدکاری کا باعث بنتے ہیں۔ ہمسایوں کا خیال رکھنا، ان کی خوشی غمی میں شریک ہونا، ان سے میل جول رکھنا بجا ہے لیکن شرعی حدود سے تجاوز بہر صورت ناجائز ہے۔ (۷) بدکاری کی طرح دیگر گناہ جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے ان کی شدت بھی ہمسائیوں کے ساتھ کرنے سے بڑھ جاتی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوری کا ذکر فرمایا۔
تخریج : صحیح:أخرجه المصنف في التاریخ الکبیر:۸؍ ۵۴۔ وأحمد:۲۳۸۵۴۔ والطبراني في الکبیر:۲۰؍ ۲۵۶۔ والبزار في مسند:۶؍ ۵۰۔ والبیهقي في الشعب:۱۲؍ ۹۹۔ الصحیحة:۶۵۔ (۱)اس روایت سے معلوم ہوا کہ گناہ کی قباحت بعض اوقات جگہ اور افراد کے لحاظ سے بڑھ جاتی ہے۔ زنا کبیرہ گناہ ہے لیکن اس وقت یہ اکبر الکبائر بن جاتا ہے جب ہمسائے کی کسی عورت سے کیا جائے اور اس سے بھی قبیح ہو جاتا ہے جب کسی محرم خاتون (بیٹی، بہن، پھوپھی، خالہ)سے کیا جائے۔ (۲) پڑوسی کا معاملہ دوسروں سے مختلف ہوتا ہے۔ اجنبی آدمی کے بارے میں انسان محتاط رہتا ہے اور اجنبی بھی ایسی جرأت کرتے ہوئے ڈرتا ہے لیکن پڑوسی پر چونکہ اعتماد ہوتا ہے اور وہ اس اعتماد کو ٹھیس پہنچاتا ہے حالانکہ اسے بہ حیثیت پڑوسی ہمسائے کی ناموس کی حفاظت کرنی چاہیے تھی۔ اس لیے اس کا گناہ دس گنا زیادہ قرار دیا۔ ایک حدیث میں شرک اور والدین کی گستاخی کے بعد اسے سب سے بڑا گناہ کہا گیا ہے۔ (۳) بعض روایات میں (یزنی)کے بجائے (تزانی)کے الفاظ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہ صرف زنا کرتا ہے بلکہ ہمسائے کی بیوی کے ساتھ اس طرح تعلقات بناتا ہے کہ وہ دونوں رضا مندی سے اس معصیت کا ارتکاب کرتے ہیں۔ گویا اس طرح وہ ہمسائے کی بیوی کو اپنی طرف مائل کرکے اس کا گھر بھی برباد کرتا ہے۔ اگرچہ یہاں بیوی کا ذکر ہے۔ (۴) اس سے معلوم ہوا جہاں اعتماد ہو، انسان کا آنا جانا ہو یا کوئی شخص کسی کے گھر کام کرتا ہو تو اسے بدکرداری سے دور رہنا چاہیے کیونکہ ایسی جگہ بدکاری سے گناہ دس گنا شدید ہو جائے گا۔ (۵) حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار دیا ہو۔ کسی امتی کو کسی چیز کو حلال و حرام قرار دینے کا اختیار ہرگز نہیں ہے۔ (۶) معاشرتی طور پر یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ اکثر لوگ پڑوسیوں کے معاملے میں نہایت غیر محتاط رویہ اختیار کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے گھر بلا تکلف آنا جانا، خواتین کا پردہ نہ کرنا، مردو زن کا اختلاط ایسے عوامل ہیں جو بدکاری کا باعث بنتے ہیں۔ ہمسایوں کا خیال رکھنا، ان کی خوشی غمی میں شریک ہونا، ان سے میل جول رکھنا بجا ہے لیکن شرعی حدود سے تجاوز بہر صورت ناجائز ہے۔ (۷) بدکاری کی طرح دیگر گناہ جن کا تعلق حقوق العباد سے ہے ان کی شدت بھی ہمسائیوں کے ساتھ کرنے سے بڑھ جاتی ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوری کا ذکر فرمایا۔