كِتَابُ بَابُ التَّسْلِيمِ عَلَى الْأَمِيرِ حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: قَدِمَ مُعَاوِيَةُ حَاجًّا حَجَّتَهُ الْأُولَى وَهُوَ خَلِيفَةٌ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ الْأَنْصَارِيُّ فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْأَمِيرُ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، فَأَنْكَرَهَا أَهْلُ الشَّامِ وَقَالُوا: مَنْ هَذَا الْمُنَافِقُ الَّذِي يُقَصِّرُ بِتَحِيَّةِ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ؟ فَبَرَكَ عُثْمَانُ عَلَى رُكْبَتِهِ ثُمَّ قَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، إِنَّ هَؤُلَاءِ أَنْكَرُوا عَلَيَّ أَمْرًا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنْهُمْ، فَوَاللَّهِ لَقَدْ حَيَّيْتُ بِهَا أَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ، فَمَا أَنْكَرَهُ مِنْهُمْ أَحَدٌ، فَقَالَ مُعَاوِيَةُ لِمَنْ تَكَلَّمَ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ: عَلَى رِسْلِكُمْ، فَإِنَّهُ قَدْ كَانَ بَعْضُ مَا يَقُولُ، وَلَكِنَّ أَهْلَ الشَّامِ قَدْ حَدَثَتْ هَذِهِ الْفِتَنُ، قَالُوا: لَا تُقَصَّرُ عِنْدَنَا تَحِيَّةُ خَلِيفَتِنَا، فَإِنِّي إِخَالُكُمْ يَا أَهْلَ الْمَدِينَةِ تَقُولُونَ لِعَامِلِ الصَّدَقَةِ: أَيُّهَا الْأَمِيرُ
کتاب
امیر کو سلام کہنا
سیدنا عبیداللہ بن عبداللہ رحمہ اللہ سے روایت ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے کے بعد پہلا حج کرنے کے لیے آئے تو سیدنا عثمان بن حنیف انصاری رضی اللہ عنہ ان سے ملنے آئے تو انہوں نے کہا:السلام علیک أیہا الأمیر ورحمۃ اللّٰہ۔ اہل شام کو یہ انداز برا لگا اور انہوں نے کہا:یہ منافق کون ہے جو امیر المؤمنین کے سلام میں نقص پیدا کرتا ہے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اپنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گئے، پھر فرمایا:امیر المؤمنین! یہ لوگ مجھ سے ایسی بات پر ناراض ہو رہے جسے آپ ان سے زیادہ جانتے ہیں۔ اللہ کی قسم میں نے سیدنا ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو اسی طرح سلام کہا تو کسی نے ان میں سے اسے ناپسند نہیں کیا۔ اہل شام میں سے جس نے یہ بات کی تھی سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا:ٹھہر جاؤ۔ انہوں نے وہی بات کی ہے جو وہ کہتے تھے۔ لیکن شام والوں کو جب یہ فتنہ پیش آیا تو کہنے لگے کہ ہمارے پاس ہمارے خلیفہ کے سلام میں کوتاہی نہ کی جائے۔ اے اہل مدینہ! میرا خیال ہے کہ تم صدقہ وصول کرنے والے عامل کو أیّہا الأمیر کہتے ہو (اس لیے انہوں نے برا محسوس کیا ہے۔)
تشریح :
سلام کا جو انداز جس شخص کے لیے معروف ہو، وہی اختیار کرنا چاہیے بشرطیکہ اس میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔
تخریج :
صحیح:۱۰۲۴۔ المصنف لعبد الرزاق:۱۵؍ ۳۹۰، ح:۱۹۴۵۴۔
سلام کا جو انداز جس شخص کے لیے معروف ہو، وہی اختیار کرنا چاہیے بشرطیکہ اس میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔