الادب المفرد - حدیث 101

كِتَابُ بَابُ الْوَصَاةِ بِالْجَارِ حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ أَبِي أُوَيْسٍ قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((مَا زَالَ جِبْرِيلُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 101

کتاب ہمسائے کے متعلق وصیت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’مجھے جبریل مسلسل پڑوسی کے متعلق تاکیدی حکم دیتے رہے حتی کہ مجھے خیال گزرا کہ وہ اسے (ہمسائے کو )ضرور وارث بنا دیں گے۔‘‘
تشریح : (۱)اہل عرب کے ہاں ’’الجار قبل الدار‘‘ گھر سے پہلے پڑوسی کا جملہ بہت معروف ہے۔ اچھا ہمسایہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ انسان کا واسطہ اکثر و بیشتر ہمسایوں سے پڑتا ہے۔ حتی کہ قریبی رشتہ داروں سے بھی زیادہ ہمسایوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ دکھ درد میں رشتہ دار بعد میں پہنچتے ہیں جبکہ ہمسائے پہلے سے آن موجود ہوتے ہیں۔ اسی اہمیت کے پیش نظر شریعت نے پڑوسیوں کے بہت زیادہ حقوق بیان کیے ہیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ (۲) ’’وارث بنا دیں گے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ حکم لے کر نازل ہوں گے کہ پڑوسی بھی اقرباء کی طرح وارث ہیں اور ان کا بھی وراثت میں حصہ ہے۔ ورنہ جبریل کو از خود اپنی طرف سے احکام دینے کا اختیار ہرگز نہیں تھا۔ یہ نسبت مجازی ہے اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اگر کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دیتے تو اللہ کے حکم سے ایسا کرتے اپنی طرف سے آپ کو از خود اختیار نہیں تھا جیسا کہ سورۂ تحریم کی شان نزول سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے شہد اپنے اوپر حرام کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یَاأیُّهَا النَّبِيُ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أحَلَّ اللّٰهُ لَكَ﴾ ’’اے نبی! تم اس چیز کو کیوں حرام قرار دیتے ہو جسے اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے؟‘‘ (۳) ’’وصیت کرتے رہے‘‘ کہ پڑوسی کے ساتھ بھلائی کریں، اس کا خیال رکھیں، اس کی ضرورتیں پوری کریں اس کی عزت و آبرو کا خیال رکھیں۔ وہ فاسق ہے تو اسے اچھے طریقے سے سمجھائیں، کافر ہے تو نرمی سے اسلام کی دعوت دیں، اس کے عیوب پر پردہ ڈالیں، اس کے گھر ہدیہ بھیجیں۔ اس کے لیے دعا کریں، اسے ایذا نہ دیں، وہ وحشت محسوس نہ کرے اور تمہارے شر سے محفوظ ہو۔ لیکن افسوس کہ آج مسلمان ان تعلیمات سے یکسر روگردانی اختیار کرچکے ہیں، بالخصوص شہری زندگی میں اس کا تصور تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ پڑوسی کا خیال تو خیر دور کی بات ہے سالہا سال تک لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے پڑوس میں کون رہ رہا ہے۔ وہ بھوکا ہے یا پیاسا! اس قدر خود پسندی اور بے پروائی یقینا ہمیں تباہی کے راستے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ صورت حال اس حد تک خطرناک ہے کہ اگر تعارف ہے بھی تو ہمسایہ شر سے محفوظ نہیں۔ اس کی بہو، بیٹی کا احترام نہیں، شریف انسان کے لیے اپنی شرافت برقرار رکھنا مشکل ہے، تاک جھانک اور چوراہوں میں کھڑے ہوکر اپنے محلے اور پڑوسیوں کی خواتین کو تنگ کرنا آج کے نوجوان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ گھر بناتے ہیں تو اخلاق کی ساری حدیں پھلانک جاتے ہیں، نہ پڑوسی کی غربت کا خیال، نہ اس کے پردے کا لحاظ بس ایک ہی ذہن ہے کہ میری کوٹھی اور مکان خوبصورت اور سب سے نمایاں ہو۔ کیونکہ پڑوسی کے ساتھ بہت سے مصالح اور مفاسد مشترک ہیں اس لیے شریعت نے اس کا بہت زیادہ خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، الأدب، باب الوصاة بالجار:۶۰۱۴۔ ومسلم:۲۶۲۵۔ وأبي داود:۵۱۵۱۔ والترمذي:۱۹۴۲۔ وابن ماجة:۳۶۷۳۔ الارواء:۸۹۱۔ (۱)اہل عرب کے ہاں ’’الجار قبل الدار‘‘ گھر سے پہلے پڑوسی کا جملہ بہت معروف ہے۔ اچھا ہمسایہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے کیونکہ انسان کا واسطہ اکثر و بیشتر ہمسایوں سے پڑتا ہے۔ حتی کہ قریبی رشتہ داروں سے بھی زیادہ ہمسایوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ دکھ درد میں رشتہ دار بعد میں پہنچتے ہیں جبکہ ہمسائے پہلے سے آن موجود ہوتے ہیں۔ اسی اہمیت کے پیش نظر شریعت نے پڑوسیوں کے بہت زیادہ حقوق بیان کیے ہیں اور ان کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ (۲) ’’وارث بنا دیں گے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ حکم لے کر نازل ہوں گے کہ پڑوسی بھی اقرباء کی طرح وارث ہیں اور ان کا بھی وراثت میں حصہ ہے۔ ورنہ جبریل کو از خود اپنی طرف سے احکام دینے کا اختیار ہرگز نہیں تھا۔ یہ نسبت مجازی ہے اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اگر کسی چیز کو حلال یا حرام قرار دیتے تو اللہ کے حکم سے ایسا کرتے اپنی طرف سے آپ کو از خود اختیار نہیں تھا جیسا کہ سورۂ تحریم کی شان نزول سے واضح ہوتا ہے کہ آپ نے شہد اپنے اوپر حرام کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿یَاأیُّهَا النَّبِيُ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أحَلَّ اللّٰهُ لَكَ﴾ ’’اے نبی! تم اس چیز کو کیوں حرام قرار دیتے ہو جسے اللہ نے تمہارے لیے حلال کیا ہے؟‘‘ (۳) ’’وصیت کرتے رہے‘‘ کہ پڑوسی کے ساتھ بھلائی کریں، اس کا خیال رکھیں، اس کی ضرورتیں پوری کریں اس کی عزت و آبرو کا خیال رکھیں۔ وہ فاسق ہے تو اسے اچھے طریقے سے سمجھائیں، کافر ہے تو نرمی سے اسلام کی دعوت دیں، اس کے عیوب پر پردہ ڈالیں، اس کے گھر ہدیہ بھیجیں۔ اس کے لیے دعا کریں، اسے ایذا نہ دیں، وہ وحشت محسوس نہ کرے اور تمہارے شر سے محفوظ ہو۔ لیکن افسوس کہ آج مسلمان ان تعلیمات سے یکسر روگردانی اختیار کرچکے ہیں، بالخصوص شہری زندگی میں اس کا تصور تقریباً ختم ہوچکا ہے۔ پڑوسی کا خیال تو خیر دور کی بات ہے سالہا سال تک لوگوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ہمارے پڑوس میں کون رہ رہا ہے۔ وہ بھوکا ہے یا پیاسا! اس قدر خود پسندی اور بے پروائی یقینا ہمیں تباہی کے راستے کی طرف دھکیل رہی ہے۔ صورت حال اس حد تک خطرناک ہے کہ اگر تعارف ہے بھی تو ہمسایہ شر سے محفوظ نہیں۔ اس کی بہو، بیٹی کا احترام نہیں، شریف انسان کے لیے اپنی شرافت برقرار رکھنا مشکل ہے، تاک جھانک اور چوراہوں میں کھڑے ہوکر اپنے محلے اور پڑوسیوں کی خواتین کو تنگ کرنا آج کے نوجوان کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ گھر بناتے ہیں تو اخلاق کی ساری حدیں پھلانک جاتے ہیں، نہ پڑوسی کی غربت کا خیال، نہ اس کے پردے کا لحاظ بس ایک ہی ذہن ہے کہ میری کوٹھی اور مکان خوبصورت اور سب سے نمایاں ہو۔ کیونکہ پڑوسی کے ساتھ بہت سے مصالح اور مفاسد مشترک ہیں اس لیے شریعت نے اس کا بہت زیادہ خیال رکھنے کا حکم دیا ہے۔