الادب المفرد - حدیث 100

كِتَابُ بَابُ الرَّحْمَةُ مِائَةُ جُزْءٍ حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ قَالَ: أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ((جَعَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الرَّحْمَةَ مِائَةَ جُزْءٍ، فَأَمْسَكَ عِنْدَهُ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ، وَأَنْزَلَ فِي الْأَرْضِ جُزْءًا وَاحِدًا، فَمِنْ ذَلِكَ الْجُزْءِ يَتَرَاحَمُ الْخَلْقُ، حَتَّى تَرْفَعَ الْفَرَسُ حَافِرَهَا عَنْ وَلَدِهَا، خَشْيَةَ أَنْ تُصِيبَهُ))

ترجمہ الادب المفرد - حدیث 100

کتاب رحمت کے سو حصے ہونے کا بیان حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:’’اللہ عزوجل نے رحمت کے سو حصے کیے تو ننانوے اپنے پاس رکھ لیے اور ایک حصہ زمین میں اتارا۔ اسی ایک حصے سے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے حتی کہ گھوڑی اپنے بچے سے پاؤں اٹھا لیتی ہے تاکہ اسے تکلیف نہ ہو۔‘‘
تشریح : (۱)رحمت اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے جس کے اجزا ممکن ہیں۔ انسانوں کا باہمی ربط اور جانوروں کا ایک دوسرے سے لطف اسی رحمت کا نتیجہ ہے۔ بلکہ یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نتیجے میں چل رہی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ انسانوں اور دیگر مخلوق کا آپس میں رحم دل ہونا، اللہ کی اس رحمت کا نتیجہ ہے جو اللہ نے ان کے دلوں میں پیدا کی ہے۔ گویا یہ رحمت مخلوق الٰہی ہے۔ ایک رحمت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفتِ ذاتی اور صفتِ فعلی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مخلوق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰی ظَهْرِهَا مِنْ دَآبَّةٍ....﴾ ’’اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کا ان کے کرتوتوں پر مواخذہ کرتا تو زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا جاندار نہ چھوڑتا۔‘‘ (۲) انسانوں پر رحم نہ کرنے والا جانوروں سے بھی بدتر ہے کیونکہ وہ بھی رحم کرتے ہیں اور اسی رحمت کے باعث ان کی نسل بڑھتی ہے، ورنہ جنگلی درندے خود اپنے بچوں کو کھا جائیں۔ (۳) بعض لوگ اللہ کی رحمت سے متعلق روایات بیان کرکے کہتے ہیں کہ اللہ بڑا غفور ورحیم ہے، لہٰذا اعمال صالحہ نہ بھی کیے تو بخش دے گا۔ یہ بات درست نہیں کیونکہ اللہ کی رحمت کے مستحق اس کے فرمانبردار بندے ہی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ﴾ ’’اور میری رحمت ہرچیز کو گھیرے ہوئے ہے، چنانچہ میں اسے ضرور متقی لوگوں کے لیے لکھ دوں گا۔‘‘ درحقیقت شیطان بد عملی کے راستے مزین کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور انسان بہک کر یہ کہتا ہے کہ اللہ نے ہمیں معاف نہیں کرنا تو کسے معاف کرے گا۔ کئی واعظین لوگوں میں اس طرح بدعملی پیدا کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی رحمت کا ذکر کیا ہے وہاں اپنے عذاب کے شدید ہونے کا بھی برملا اظہار کیا ہے۔ اس لیے درست عقیدہ یہی ہے کہ انسان اعمال صالحہ کرے، گناہوں سے بچے اور پھر اللہ کی رحمت کی امید رکھے۔ اپنے اعمال پر تکیہ نہ کر بیٹھے۔
تخریج : صحیح:أخرجه البخاري، الأدب، باب جعل اللّٰه الرحمة مائة جزء:۶۰۰۰۔ ومسلم:۲۷۵۲۔ والترمذي:۳۵۴۱۔ وابن ماجة:۴۲۹۳۔ (۱)رحمت اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے جس کے اجزا ممکن ہیں۔ انسانوں کا باہمی ربط اور جانوروں کا ایک دوسرے سے لطف اسی رحمت کا نتیجہ ہے۔ بلکہ یہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نتیجے میں چل رہی ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ انسانوں اور دیگر مخلوق کا آپس میں رحم دل ہونا، اللہ کی اس رحمت کا نتیجہ ہے جو اللہ نے ان کے دلوں میں پیدا کی ہے۔ گویا یہ رحمت مخلوق الٰہی ہے۔ ایک رحمت وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفتِ ذاتی اور صفتِ فعلی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ مخلوق نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَوْ یُؤَاخِذُ اللّٰهُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلٰی ظَهْرِهَا مِنْ دَآبَّةٍ....﴾ ’’اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کا ان کے کرتوتوں پر مواخذہ کرتا تو زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا جاندار نہ چھوڑتا۔‘‘ (۲) انسانوں پر رحم نہ کرنے والا جانوروں سے بھی بدتر ہے کیونکہ وہ بھی رحم کرتے ہیں اور اسی رحمت کے باعث ان کی نسل بڑھتی ہے، ورنہ جنگلی درندے خود اپنے بچوں کو کھا جائیں۔ (۳) بعض لوگ اللہ کی رحمت سے متعلق روایات بیان کرکے کہتے ہیں کہ اللہ بڑا غفور ورحیم ہے، لہٰذا اعمال صالحہ نہ بھی کیے تو بخش دے گا۔ یہ بات درست نہیں کیونکہ اللہ کی رحمت کے مستحق اس کے فرمانبردار بندے ہی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ رَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ فَسَاَکْتُبُهَا لِلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ﴾ ’’اور میری رحمت ہرچیز کو گھیرے ہوئے ہے، چنانچہ میں اسے ضرور متقی لوگوں کے لیے لکھ دوں گا۔‘‘ درحقیقت شیطان بد عملی کے راستے مزین کرکے لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور انسان بہک کر یہ کہتا ہے کہ اللہ نے ہمیں معاف نہیں کرنا تو کسے معاف کرے گا۔ کئی واعظین لوگوں میں اس طرح بدعملی پیدا کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی رحمت کا ذکر کیا ہے وہاں اپنے عذاب کے شدید ہونے کا بھی برملا اظہار کیا ہے۔ اس لیے درست عقیدہ یہی ہے کہ انسان اعمال صالحہ کرے، گناہوں سے بچے اور پھر اللہ کی رحمت کی امید رکھے۔ اپنے اعمال پر تکیہ نہ کر بیٹھے۔