كِتَابُ بَابُ جَزَاءِ الْوَالِدَيْنِ حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((لَا يَجْزِي وَلَدٌ وَالِدَهُ، إِلَّا أَنْ يَجِدَهُ مَمْلُوكًا فَيَشْتَرِيَهُ فَيُعْتِقَهُ))
کتاب
والدین کے احسان کا بدلہ دینے کا بیان
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی بیٹا اپنے باپ کے احسانات کا بدلہ نہیں دے سکتا۔ سوائے اس کے کہ وہ اپنے باپ کو غلام پائے اور اسے خرید کر آزاد کر دے (تو پھر حق ادا کرسکتا ہے)۔‘‘
تشریح :
(۱)اس حدیث سے والدین کے احسان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان خواہ والدین کے ساتھ جتنا بھی حسن سلوک کرے کم ہے اور اس کے لیے والدین کی قربانیوں کا بدلہ دینا ممکن نہیں ہے۔
(۲) اسلامی حکومت جب جہاد کرے اور دوران جنگ جو کافر گرفتار ہوں ان کو غلام بنا لیا جاتا ہے۔ شروع اسلام میں یہ لوگ مسلمانوں سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جاتے تھے۔ بسا اوقات بیٹا آزاد ہو جاتا اور باپ غلام ہی ہوتا تو اس صورت میں اگر بیٹا باپ کو خرید لے تو باپ خود بخود آزاد ہو جاتا ہے لیکن بیٹے کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔
(۳) شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الادب المفرد میں علامہ سندی کے حوالے سے لکھا ہے کہ غلام کے سانس بھی گویا اس کے اپنے نہیں ہوتے اور وہ ہلاک ہونے والے شخص کی طرح ہوتا ہے اور اس کو آزادی دلوانا اسے زندگی دینا ہے۔ بیٹا اگر باپ کو آزادی دلواتا ہے تو گویا اس نے باپ کو عدم سے وجود بخشا اور باپ بھی بیٹے کے عدم سے وجود میں آنے کا سبب بنا تھا اس لیے اس کا یہ فعل اس کے برابر ہوگیا تو اس نے والد کا بدلہ ادا کر دیا۔ والله اعلم بالصواب۔
تخریج :
صحیح: أخرجه مسلم، العتق، باب فضل عتق الوالد: ۱۵۱۰۔ و ابو داود: ۵۱۳۸۔ والترمذي: ۱۹۰۶۔ وابن ماجة: ۳۶۵۹۔ الارواء: ۱۷۴۷۔
(۱)اس حدیث سے والدین کے احسان کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان خواہ والدین کے ساتھ جتنا بھی حسن سلوک کرے کم ہے اور اس کے لیے والدین کی قربانیوں کا بدلہ دینا ممکن نہیں ہے۔
(۲) اسلامی حکومت جب جہاد کرے اور دوران جنگ جو کافر گرفتار ہوں ان کو غلام بنا لیا جاتا ہے۔ شروع اسلام میں یہ لوگ مسلمانوں سے متاثر ہو کر مسلمان ہو جاتے تھے۔ بسا اوقات بیٹا آزاد ہو جاتا اور باپ غلام ہی ہوتا تو اس صورت میں اگر بیٹا باپ کو خرید لے تو باپ خود بخود آزاد ہو جاتا ہے لیکن بیٹے کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔
(۳) شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح الادب المفرد میں علامہ سندی کے حوالے سے لکھا ہے کہ غلام کے سانس بھی گویا اس کے اپنے نہیں ہوتے اور وہ ہلاک ہونے والے شخص کی طرح ہوتا ہے اور اس کو آزادی دلوانا اسے زندگی دینا ہے۔ بیٹا اگر باپ کو آزادی دلواتا ہے تو گویا اس نے باپ کو عدم سے وجود بخشا اور باپ بھی بیٹے کے عدم سے وجود میں آنے کا سبب بنا تھا اس لیے اس کا یہ فعل اس کے برابر ہوگیا تو اس نے والد کا بدلہ ادا کر دیا۔ والله اعلم بالصواب۔