كِتَابُ بَابُ قَوْلِهِ تَعَالَى: ﴿وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا﴾ [العنكبوت: 8] أَخْبَرَنَا أَبُو نَصْرٍ أَحْمَدُ بْن مُحَمَّدِ بْنِ الْحَسَنِ بْنِ حَامِدِ بْنِ هَارُونَ بْنِ عَبْدِ الجْبَّارِ البُخَارِيُّ المَعْرُوفُ بِابْنِ النَّيَازِكِيِّ قِرَاءَةً عَلَيْهِ فَأَقْرَّ بِهِ قَدِمَ عَلَيْنَا حَاجًا فِي صَفَرَ سَنَةَ سَبْعِينَ وَثَلاثِمِائَةٍ، قَالَ: أَخْبَرَناَ أَبُو الْخَيْرِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمِّدِ بْنِ الجَلِيلِ بْنِ خَالِدِ بْنِ حُرَيْثٍ البُخَارِيُّ الْكِرْمَانِيُّ الْعَبْقَسِيُّ البَزَّارُ سَنَة اثْنَتَيْنِ وَعِشْرِينَ وَثَلَاثِمِائَةٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ المُغَيرَةِ بْنِ الْأَحْنَفِ الْجُعْفِيُّ البُخَاِرُّي قال: حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ: الْوَلِيدُ بْنُ الْعَيْزَارِ أَخْبَرَنِي قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا عَمْرٍو الشَّيْبَانِيَّ يَقُولُ: حَدَّثَنَا صَاحِبُ هَذِهِ الدَّارِ، وَأَوْمَأَ بِيَدِهِ إِلَى دَارِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: ((الصَّلَاةُ عَلَى وَقْتِهَا)) ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: ((ثُمَّ بِرُّ الْوَالِدَيْنِ)) ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ: ((ثُمَّ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ)) قَالَ: حَدَّثَنِي بِهِنَّ، وَلَوِ اسْتَزَدْتُهُ لَزَادَنِي
کتاب
باب اللہ تعالیٰ کے اس فرمان سے متعلق کہ’’ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیکی کا حکم دیا۔‘‘
عمرو بن شیبانی، عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے تھے کہ ہمیں اس گھر والے نے بتایا کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اے اللہ کے رسول! کون سا عمل اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا۔‘‘ میں نے کہا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ’’پھر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔‘‘ میں نے کہا: اس کے بعد کون سا؟ آپ نے فرمایا: ’’پھر اللہ کے رستے میں جہاد کرنا۔‘‘
ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے انھی سوالوں پر اکتفا کیا، اگر میں مزید درخواست کرتا تو آپ مزید چیزیں بتا دیتے ۔
تشریح :
۱۔ مذکورہ حدیث کی سند میں مذکور عبارت ’’ صَاحِبُ هَذِہِ الدَّار‘‘ سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ مکان وغیرہ بنانا زہد اور تقویٰ کے خلاف نہیں ہے، اور اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ استاد کو نام کی بجائے کسی نسبت سے پکارنا مستحسن ہے۔
۲۔ امام بخاری رحمہ اللہ جب اپنی اس کتاب میں صحابہ کا تذکرہ کرتے ہوئے صرف ’’عبداللہ‘‘ کا ذکر کریں تو اس سے مراد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہوں گے۔
۳۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے سوال کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کس قدر بھلائی کے متلاشی تھے او ر اس کے حریص تھے۔
۴۔ لفظ ’’أَحَبُّ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال کے مراتب فی نفسہ بھی مختلف ہوتے ہیں کوئی عمل درجہ میں زیادہ فضیلت والا ہے تو کوئی کم، جیسا کہ کبھی اشخاص اوقات اور جگہوں کے بدلنے سے اعمال کے مراتب میں فرق پڑ جاتا ہے۔
نقطہ:....بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ــــــ((أَفْضَلُ الأَعْمَالِ إِیْمَانٌ بِاللّٰهِ))اور بعض دفعہ فرمایا: ــــــ((أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ اِدْخَالُ السُّرُوْرِ عَلَی مُؤْمِنٍ))یعنی جب آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کسی عمل کی فضیلت بیان کرنی ہوتی اور اس کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہوتا تو یہ لفظ یعنی أَفْضَلُ ، أَحَبُّ استعمال فرماتے ، لیکن یاد رہے کہ عبادات بدنیہ میں سے سب سے افضل اور أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ عمل نماز ہی ہے ، اور عقائد میں سے سب سے افضل اور أَحَبُّ إِلَی اللّٰهِ عمل إیمان باللہ ہے۔ واللہ أعلم ( فتح الباري: ۲؍۱۴)
۵۔ نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل عمل ہے ، اور وقت کا تعین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری احادیث میں کر دیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرنا سب سے افضل عمل ہے۔ (صحیح الترغیب والترهیب، ح:۳۹۹)اور عشاء کی نماز کو تاخیر سے پڑھنا افضل ہے، جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ نیند یا بھول جانے کی صورت میں تاخیر سے ادا کی جانے والی نماز ادا تو ہو جائے گی لیکن افضلیت کے درجے سے نکل جائے گی۔
۶۔ نماز اللہ تعالیٰ کا حق ہے اس لیے سب سے پہلے خالق حقیقی کے حق کا تذکرہ کیا، اس کے بعد والدین کے حقوق مقدم ہیں، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ: ﴿وَ قَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّآ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا﴾ (بنی اسرائیل: ۲۳)سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اسی لیے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے یہ پوچھنے پر کہ اللہ کے رسول اس کے بعد کس کا حق ہے، یعنی کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے، آپ نے جواب دیا: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، عربی لفظ برّ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں کہ ان کے ساتھ بھلائی اور صلہ رحمی کی جائے اور ان کے حقوق ادا کیے جائیں۔
لفظ ’’ثُمَّ‘‘ لا کر اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ والدین کے حقوق کی آڑ میں حقوق اللہ کو ضائع نہ کیا جائے بلکہ اللہ کے حقوق کو مقدم رکھا جائے اور والدین اگر حقوق باری تعالیٰ ادا کرنے میں رکاوٹ بنیں تو ان کی اطاعت نہ کی جائے جیسا کہ باب مذکور کی آیت کے شانِ نزول سے واضح ہے۔ وہ اس طرح کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو ان کی والدہ نے قسم کھا لی کہ جب تک تو مرتد نہیں ہو جاتا، میں تیرے ساتھ کلام نہیں کروں گی حتی کہ کھانا پینا بھی چھوڑ دیا، اور اسے شدت بھوک اور پیاس سے غشی کے دورے پڑنے شروع ہو گئے، تو سعد رضی اللہ عنہ نے یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا، اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت نازل فرمائی:
﴿وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَـلَا تُطِعْهُمَا﴾ (العنکبوت:۸)
’’اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا۔ اگر وہ دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک کرے جس کا تجھے علم نہیں تو ان دونوں کی اطاعت نہ کرنا۔‘‘
اورلفظ ’’برّ‘‘ کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک دل کی خوشی سے ہو۔ جس طرح والدین اولاد کی تربیت اور پرورش کرتے وقت کوئی ملال اور تنگی محسوس نہیں کرتے، اسی طرح اولاد کو خدمت والدین میں بھی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے، خواہ وہ کتنے ہی علم و فضل والے ہوں، اس لیے کہ والدین ہی انسان کے وجود میں آنے کا سبب بنتے ہیں، اور وہ اولاد کے لیے جو کچھ کرتے ہیں اولاد اس کا عشر عشیر بھی نہیں کر سکتی۔
یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا.......((بِرُّ الْوَالِدَیْنِ))اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر ہے: ﴿أَنِ اشْکُرْلِيْ وَلِوَالِدَیْكَ﴾ ’’یعنی میرا شکر کرو اور اپنے والدین کا بھی۔‘‘
ابن عیینہ رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کے ’’شکر‘‘ اور والدین کے ’’شکر‘‘ میں فرق کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ذکر کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( مَنْ صَلَّی الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ فَقَدْ شَکَرَ اللّٰهَ ، وَمَنْ دَعَا لِوَالِدَیْهِ عَقِبَهَا فَقَدْ شَکَرَلَهُمَا۔))(فتح الباري:۲؍۱۵)
’’جس شخص نے پانچ نماز ادا کیں اس نے اللہ کا شکر ادا کیا، اور جس نے پانچ نمازیں اد اکرنے کے بعد اپنے والدین کے لیے بھلائی کی دعا کی گویا اس نے والدین کا شکر ادا کیا۔‘‘
۸۔ تیسری مرتبہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس کے بعدکون سا عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے تو آپ نے فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا۔
جہاد’’جهد‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مشقت کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں جہاد اس کوشش کو کہا جاتا ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ اور احکامِ الٰہی کو نافذ کرنے کے لیے کی جائے۔ اس کی واضح ترین شکل کافروں کو ظلم سے روکنے اور توحید کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے پر ان سے لڑنا ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً پورے مدنی دور میں کافروں کے ساتھ جہاد کرتے رہے اور صحابہ کرام اور خلفاء راشدین نے اس عمل کو آگے بڑھایا حق بات پر ڈٹ جانا اور اسے دوسروں تک پہنچانا بھی جہاد کی تعریف میں شامل ہے۔ معصیت سے اپنے آپ کو روک کر رکھنا او ر اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرنا بھی جہاد ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
((اَلْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهٗ فِي اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ))
’’مجاہد وہ ہے جو اللہ عزوجل کے لیے اپنے نفس سے جہاد کرے۔‘‘ (صحیح الترغیب والترهیب، ح:۱۲۱۸)
جہاد کو تیسرا مرتبہ دینا اس کی عدم اہمیت کی وجہ سے نہیں ہے ، بلکہ جہاد درحقیقت پہلے دو معاملات پر موقوف ہے۔اس لیے کہ جہاد ایمان اور نماز کو قائم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔اگر کسی آدمی کی نماز درست نہیں تو گویا اس کے جہاد میں خلل ہے۔ جو خود اپنے نفس سے جہاد نہیں کر سکتا وہ دوسروں سے کیا جہاد کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حتی شهدوا ان لا اله الا اللّٰه)) اور جہاں تک والدین کا تعلق ہے تو جہاد ان کی اجازت اور رضا مندی پر موقوف ہے جیسا کہ بہت ساری احادیث سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے۔
۸۔ اس حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو نماز کی حفاظت نہیں کرے گا وہ دوسرے احکام کو ضائع کر دے گا۔ اور جو اپنے والدین سے اچھائی نہیں کر سکتا، دوسروں کو اس سے خیر کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے ، جو کفار سے جہاد نہیں کر سکتا وہ فاسق اور فاجر لوگوں کو برائی سے کس طرح روک سکتا ہے۔
۹۔ آخر میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں مزید سو ال کرتا تو آپ اور بھی ایسے اعمال بتاتے اور صحیح مسلم میں اس امر کی وضاحت ہے کہ میں نے اس لیے مزید استفسار نہیں کیا کہ کہیں آپ اُکتا نہ جائیں۔
اس بات میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ استاد کی تعظیم کرنا اور اس کا خیال رکھنا ضروری ہے اور کسی عالم دین سے بے جا سوال نہیں کرنے چاہئیں، استاد اگر طالب علم کے سوال کا مختصر جواب دے کر مزید وضاحت نہ کرے تو بھی درست ہو گا۔اس حدیث کے آخر میں لفظ ’’لَوْ‘‘ استعمال ہوا ہے، جب کہ ایک حدیث میں ہے ’’أَنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب القدر، باب الإیمان بالقدر والإذعان له، رقم: ۶۷۷۴۔ صحیح ابن حبان، رقم: ۵۶۹۲) کہ ’’لو ‘‘ شیطان کا کام کھولتا ہے۔ ان دونوں احادیث میں تطبیق یوں ہو گی کہ قضاء وقدر پر ایمان نہ رکھتے ہوئے اس کا استعمال درست نہیں، لیکن اگر انسان تقدیر پر ایمان رکھتا ہو تو بعض فائدہ مند باتوں میں ’ ’لَو‘‘ کا استعمال درست ہے۔ دوسرے الفاظ میں تقدیر پر ناراضی اور عدم اعتماد کی بنا پر کہنا منع ہے، تاہم کسی اچھے کام کے رہ جانے پر افسوس کرتے ہوئے ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں۔
تخریج :
تخریج الحدیث: أخرجه المصنف فی الصحیح، کتاب مواقیت الصلاة، رقم: ۵۲۷، وکتاب الأدب ، رقم: ۵۹۷۰۔ صحیح مسلم، کتاب الإیمان، رقم الحدیث: ۲۵۴۔ سنن النسائي، رقم: ۶۱۰،۶۱۱
۱۔ مذکورہ حدیث کی سند میں مذکور عبارت ’’ صَاحِبُ هَذِہِ الدَّار‘‘ سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ مکان وغیرہ بنانا زہد اور تقویٰ کے خلاف نہیں ہے، اور اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ استاد کو نام کی بجائے کسی نسبت سے پکارنا مستحسن ہے۔
۲۔ امام بخاری رحمہ اللہ جب اپنی اس کتاب میں صحابہ کا تذکرہ کرتے ہوئے صرف ’’عبداللہ‘‘ کا ذکر کریں تو اس سے مراد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہوں گے۔
۳۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے سوال کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کس قدر بھلائی کے متلاشی تھے او ر اس کے حریص تھے۔
۴۔ لفظ ’’أَحَبُّ‘‘ سے معلوم ہوتا ہے کہ اعمال کے مراتب فی نفسہ بھی مختلف ہوتے ہیں کوئی عمل درجہ میں زیادہ فضیلت والا ہے تو کوئی کم، جیسا کہ کبھی اشخاص اوقات اور جگہوں کے بدلنے سے اعمال کے مراتب میں فرق پڑ جاتا ہے۔
نقطہ:....بعض روایات میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ــــــ((أَفْضَلُ الأَعْمَالِ إِیْمَانٌ بِاللّٰهِ))اور بعض دفعہ فرمایا: ــــــ((أَفْضَلُ الْأَعْمَالِ اِدْخَالُ السُّرُوْرِ عَلَی مُؤْمِنٍ))یعنی جب آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کسی عمل کی فضیلت بیان کرنی ہوتی اور اس کی اہمیت کو اُجاگر کرنا ہوتا تو یہ لفظ یعنی أَفْضَلُ ، أَحَبُّ استعمال فرماتے ، لیکن یاد رہے کہ عبادات بدنیہ میں سے سب سے افضل اور أَحَبُّ إِلَی اللّٰہِ عمل نماز ہی ہے ، اور عقائد میں سے سب سے افضل اور أَحَبُّ إِلَی اللّٰهِ عمل إیمان باللہ ہے۔ واللہ أعلم ( فتح الباري: ۲؍۱۴)
۵۔ نماز کو اس کے وقت پر ادا کرنا اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے افضل عمل ہے ، اور وقت کا تعین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری احادیث میں کر دیا ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ نماز کو اس کے اوّل وقت میں ادا کرنا سب سے افضل عمل ہے۔ (صحیح الترغیب والترهیب، ح:۳۹۹)اور عشاء کی نماز کو تاخیر سے پڑھنا افضل ہے، جیسا کہ دوسری احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ نیند یا بھول جانے کی صورت میں تاخیر سے ادا کی جانے والی نماز ادا تو ہو جائے گی لیکن افضلیت کے درجے سے نکل جائے گی۔
۶۔ نماز اللہ تعالیٰ کا حق ہے اس لیے سب سے پہلے خالق حقیقی کے حق کا تذکرہ کیا، اس کے بعد والدین کے حقوق مقدم ہیں، جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ: ﴿وَ قَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْا اِلَّآ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا﴾ (بنی اسرائیل: ۲۳)سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اسی لیے ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے یہ پوچھنے پر کہ اللہ کے رسول اس کے بعد کس کا حق ہے، یعنی کون سا عمل اللہ کو زیادہ پسند ہے، آپ نے جواب دیا: والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا، عربی لفظ برّ استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں کہ ان کے ساتھ بھلائی اور صلہ رحمی کی جائے اور ان کے حقوق ادا کیے جائیں۔
لفظ ’’ثُمَّ‘‘ لا کر اس بات کی طرف اشارہ کر دیا کہ والدین کے حقوق کی آڑ میں حقوق اللہ کو ضائع نہ کیا جائے بلکہ اللہ کے حقوق کو مقدم رکھا جائے اور والدین اگر حقوق باری تعالیٰ ادا کرنے میں رکاوٹ بنیں تو ان کی اطاعت نہ کی جائے جیسا کہ باب مذکور کی آیت کے شانِ نزول سے واضح ہے۔ وہ اس طرح کہ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو ان کی والدہ نے قسم کھا لی کہ جب تک تو مرتد نہیں ہو جاتا، میں تیرے ساتھ کلام نہیں کروں گی حتی کہ کھانا پینا بھی چھوڑ دیا، اور اسے شدت بھوک اور پیاس سے غشی کے دورے پڑنے شروع ہو گئے، تو سعد رضی اللہ عنہ نے یہ معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھا، اللہ تعالیٰ نے درج ذیل آیت نازل فرمائی:
﴿وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْهِ حُسْنًا وَ اِنْ جَاهَدٰكَ لِتُشْرِكَ بِیْ مَا لَیْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ فَـلَا تُطِعْهُمَا﴾ (العنکبوت:۸)
’’اور ہم نے انسان کو اس کے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا۔ اگر وہ دونوں تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک کرے جس کا تجھے علم نہیں تو ان دونوں کی اطاعت نہ کرنا۔‘‘
اورلفظ ’’برّ‘‘ کے مفہوم میں یہ بھی شامل ہے کہ والدین کے ساتھ حسن سلوک دل کی خوشی سے ہو۔ جس طرح والدین اولاد کی تربیت اور پرورش کرتے وقت کوئی ملال اور تنگی محسوس نہیں کرتے، اسی طرح اولاد کو خدمت والدین میں بھی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے، خواہ وہ کتنے ہی علم و فضل والے ہوں، اس لیے کہ والدین ہی انسان کے وجود میں آنے کا سبب بنتے ہیں، اور وہ اولاد کے لیے جو کچھ کرتے ہیں اولاد اس کا عشر عشیر بھی نہیں کر سکتی۔
یاد رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا.......((بِرُّ الْوَالِدَیْنِ))اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر ہے: ﴿أَنِ اشْکُرْلِيْ وَلِوَالِدَیْكَ﴾ ’’یعنی میرا شکر کرو اور اپنے والدین کا بھی۔‘‘
ابن عیینہ رحمہ اللہ اللہ تعالیٰ کے ’’شکر‘‘ اور والدین کے ’’شکر‘‘ میں فرق کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ذکر کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
(( مَنْ صَلَّی الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ فَقَدْ شَکَرَ اللّٰهَ ، وَمَنْ دَعَا لِوَالِدَیْهِ عَقِبَهَا فَقَدْ شَکَرَلَهُمَا۔))(فتح الباري:۲؍۱۵)
’’جس شخص نے پانچ نماز ادا کیں اس نے اللہ کا شکر ادا کیا، اور جس نے پانچ نمازیں اد اکرنے کے بعد اپنے والدین کے لیے بھلائی کی دعا کی گویا اس نے والدین کا شکر ادا کیا۔‘‘
۸۔ تیسری مرتبہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ اس کے بعدکون سا عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ محبوب ہے تو آپ نے فرمایا: پھر اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنا۔
جہاد’’جهد‘‘ سے ماخوذ ہے جس کے معنی مشقت کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں جہاد اس کوشش کو کہا جاتا ہے جو اعلائے کلمۃ اللہ اور احکامِ الٰہی کو نافذ کرنے کے لیے کی جائے۔ اس کی واضح ترین شکل کافروں کو ظلم سے روکنے اور توحید کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے پر ان سے لڑنا ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً پورے مدنی دور میں کافروں کے ساتھ جہاد کرتے رہے اور صحابہ کرام اور خلفاء راشدین نے اس عمل کو آگے بڑھایا حق بات پر ڈٹ جانا اور اسے دوسروں تک پہنچانا بھی جہاد کی تعریف میں شامل ہے۔ معصیت سے اپنے آپ کو روک کر رکھنا او ر اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرنا بھی جہاد ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:
((اَلْمُجَاهِدُ مَنْ جَاهَدَ نَفْسَهٗ فِي اللّٰهِ عَزَّوَجَلَّ))
’’مجاہد وہ ہے جو اللہ عزوجل کے لیے اپنے نفس سے جہاد کرے۔‘‘ (صحیح الترغیب والترهیب، ح:۱۲۱۸)
جہاد کو تیسرا مرتبہ دینا اس کی عدم اہمیت کی وجہ سے نہیں ہے ، بلکہ جہاد درحقیقت پہلے دو معاملات پر موقوف ہے۔اس لیے کہ جہاد ایمان اور نماز کو قائم کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔اگر کسی آدمی کی نماز درست نہیں تو گویا اس کے جہاد میں خلل ہے۔ جو خود اپنے نفس سے جہاد نہیں کر سکتا وہ دوسروں سے کیا جہاد کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حتی شهدوا ان لا اله الا اللّٰه)) اور جہاں تک والدین کا تعلق ہے تو جہاد ان کی اجازت اور رضا مندی پر موقوف ہے جیسا کہ بہت ساری احادیث سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے۔
۸۔ اس حدیث میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو نماز کی حفاظت نہیں کرے گا وہ دوسرے احکام کو ضائع کر دے گا۔ اور جو اپنے والدین سے اچھائی نہیں کر سکتا، دوسروں کو اس سے خیر کی اُمید نہیں رکھنی چاہیے ، جو کفار سے جہاد نہیں کر سکتا وہ فاسق اور فاجر لوگوں کو برائی سے کس طرح روک سکتا ہے۔
۹۔ آخر میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر میں مزید سو ال کرتا تو آپ اور بھی ایسے اعمال بتاتے اور صحیح مسلم میں اس امر کی وضاحت ہے کہ میں نے اس لیے مزید استفسار نہیں کیا کہ کہیں آپ اُکتا نہ جائیں۔
اس بات میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ استاد کی تعظیم کرنا اور اس کا خیال رکھنا ضروری ہے اور کسی عالم دین سے بے جا سوال نہیں کرنے چاہئیں، استاد اگر طالب علم کے سوال کا مختصر جواب دے کر مزید وضاحت نہ کرے تو بھی درست ہو گا۔اس حدیث کے آخر میں لفظ ’’لَوْ‘‘ استعمال ہوا ہے، جب کہ ایک حدیث میں ہے ’’أَنَّ لَوْ تَفْتَحُ عَمَلَ الشَّیْطَانِ‘‘ (صحیح مسلم، کتاب القدر، باب الإیمان بالقدر والإذعان له، رقم: ۶۷۷۴۔ صحیح ابن حبان، رقم: ۵۶۹۲) کہ ’’لو ‘‘ شیطان کا کام کھولتا ہے۔ ان دونوں احادیث میں تطبیق یوں ہو گی کہ قضاء وقدر پر ایمان نہ رکھتے ہوئے اس کا استعمال درست نہیں، لیکن اگر انسان تقدیر پر ایمان رکھتا ہو تو بعض فائدہ مند باتوں میں ’ ’لَو‘‘ کا استعمال درست ہے۔ دوسرے الفاظ میں تقدیر پر ناراضی اور عدم اعتماد کی بنا پر کہنا منع ہے، تاہم کسی اچھے کام کے رہ جانے پر افسوس کرتے ہوئے ایسا کہنے میں کوئی حرج نہیں۔