کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ التَّشَهُّدِ صحیح حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى، عَنْ سُلَيْمَانَ الْأَعْمَشِ، حَدَّثَنِي شَقِيقُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: كُنَّا إِذَا جَلَسْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ, قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ -قَبْلَ عِبَادِهِ-، السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ وَفُلَانٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >لَا تَقُولُوا: السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ, فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ، وَلَكِنْ إِذَا جَلَسَ أَحَدُكُمْ فَلْيَقُلِ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ، وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ! وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ-, فَإِنَّكُمْ إِذَا قُلْتُمْ ذَلِكَ أَصَابَ كُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ-، أَوْ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ-، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ، فَيَدْعُوَ بِهِ
کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
باب: تشہد کا بیان
سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ نماز میں بیٹھا کرتے تھے تو کہا کرتے تھے «السلام على الله قبل عباده» اللہ پر اس کے بندوں سے پہلے ( یا اس کے بندوں کی طرف سے ) سلام ہو ، سلام ہو فلاں پر ، سلام ہو فلاں پر ، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اللہ پر سلام مت کہا کرو ، اللہ تو خود سراپا سلام ہے ۔ لیکن جب تم میں سے کوئی بیٹھے تو یوں کہا کرے «التحيات لله والصلوات والطيبات السلام عليك أيها النبي ورحمة الله وبركاته السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين» ” تمام طرح کی قولی ، فعلی اور مالی عبادتیں اللہ ہی کے لیے خاص ہیں ۔ سلام ہو آپ پر اے نبی ! اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں ۔ سلام ہو ہم پر اور اللہ کے نیک صالح بندوں پر ۔ “ تم لوگ جب یہ کہو گے تو تمہاری یہ دعا آسمان و زمین اور ان کے درمیان سب صالح بندوں کے لیے ہو گی ۔ ( اس کے بعد یہ کہا کرو ۔ ) «أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» ” میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور میں گواہی دیتا ہوں کی محمد ( ﷺ ) اس کے بندے اور رسول ہیں ۔ “ پھر چاہیئے کہ دعا کرے جو اس کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ ہو ۔ “
تشریح :
1۔تشہد کے تمام صیغوں میں یہ صیغے صحیح ترین ہیںَ2۔(التحیات۔تحیہ)کی جمع ہے اورا س کے معنی ہے۔سلامتی ۔بقا۔عظمت ۔بے عیب ہونا۔اور ملک وملکیت۔اور بقول علامہ خظابی وبغوی۔یہ لفظ تعظیم کے تمام تر معانی پر مشتمل ہے۔(الصلواۃ)صلاۃ کی جمع ہے۔یعنی عبادت ۔رحمت دعایئں۔اسی سے مخصوص ہیں۔(الطیبات)طیبۃ کی جمع ہے۔یعنی زکر اذکار اعمال صالح اور اچھی باتیں۔ایک قول یہ بھی ہے کہ التحیات سے قولی عبادات الصلواۃ سے فعلی عبادات اور الطیبات سے مالی عبادات مراد ہیں۔دیکھئے (نیل الاوطار۔311۔213/2۔(3)(السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ ) میں غائب کی بجائے صیغہ خظاب کا درود نبی کریمﷺکی تعلیم ہے۔اور اس کی حقیقی حکمت اللہ ہی بہترجانتاہے۔بظاہر یوں ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کےلئے اپنے تحیات پیش کرتا ہے۔تو اسے یاد دلایاگیا ہے کہ یہ سب کچھ تمھیں نبی کریمﷺ کے ذریعے سے ملا ہے۔اس لئے بندہ نبی کریم ﷺ کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے آپ کوصیغہ خظاب سے سلام پیش کرتا ہے۔ کچھ لوگوں کا اصرا ر ہے کہ ان الفاظ میں براہ راست رسول اللہ ﷺ کوسنوانا مقصود ہے۔ یہ خیال برحق اوردرست نہیں ہے۔کیونکہ اس انداز میں خطاب ہمیشہ سنوانے کےلئے نہیں ہوتا اور اس کی دلیل سنن نسائی کی درج زیل حدیث ہے۔حضرت ابو رافع بیان کرتے ہیں۔ كان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا صلي العصر ذهب الي بني عبد الاشهل فيتحدث عندهم حتي ينحدر للمغرب قال ابو رافع فبينما النبي الله صلي الله عليه وسلم يسرع الي المغرب مررنا بالبقيع فقال اف لك اف لك قالز فكبر ذلك في ذرعي فاستاخرت وظننت انه يريدني فقال ...ما لك؟ امش. فقلت احدث حدث قال ما ذلك؟ قلت اففت بي قال لاولكن هذا فلان بعثته ساعيا علي بيني فلان فغل نمرة فلرع الان مثلها من نار (سنن نسائی۔الامامۃ۔حدیث 863) رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد قبیلہ بنو عبدالاشھل کے پاس جاتے اور گفتگو میں مشغول رہتے تھے۔ حتیٰ کے مغرب کے قریب واپس تشریف لاتے۔ ابو رافع کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺنماز مغرب کے لئے جلدی جلدی تشریف لا رہے تھےاورہم بقیع کے پاس سے گزر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا۔افسو س ہے تجھ پر افسوس ہے تجھ پر ابو رافع کہتے ہیں کہ اس پر مجھے گرانی محسوس ہوئی۔ اور میں پیچھے ہوگیا۔میں نے سمجھاکہ شاید آپ میرا ارادہ فرما رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا ہوا۔؟ آگے چلو۔میں نے عرض کیا حضرت کیا کوئی بات ہوئی ہے۔؟فرمایا کیا ہوا ہے۔؟میں نے کہا آپ نے مجھ پر افسوس کااظہا ر فرمایا ہے۔ فرمایا۔نہیں اس فلاںشخص کومیں نے فلاں قبیلے کے پاس عامل بنا کر بھیجا تھا تو اس نے مال میں سے ایک دھاری دارچادر چھپالی۔چنانچہ اب اسے اسطرح آگ کی چادر پہنائی گئی ہے۔ اس حدیث میں جب رسول اللہ ﷺ کو اس کا منظر دیکھایاگیا۔تو آ پ ﷺ نے اس پرصیغہ خطاب سے افسوس کا اظہار فرمایا۔اس طرح نیا چاند یکھنے کی دعا میں ہے۔ اللهم اهله علينا بالامن والايمان والسلامة والاسلام ربي وربك الله (مستدک حاکم۔285/4۔حدیث ۔7767) اے اللہ!۔۔۔اے چاند۔میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔یہاں چاند کوسنوانا مقصود نہیں بلکہ تعلیم نبی ﷺ ہے۔الغرض تشہد میں نبی کریم ﷺ کے لئے صیغہ خطاب اسماع (سنوانے) کے لئے نہیں۔بلکہ تعلیم نبی ﷺ کی بنا پرہے۔واللہ اعلم۔اگر سنوانا مقصود ہوتا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وغیرہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد سلام کے صیغہ خطاب کو صیغہ غیب سے ہرگز تبدیل نہ کرتے اور (السلام علی النبیﷺ)نہ پڑھتے۔اور نہ اس کی تعلیم دیتے۔دیکھئے۔(صحیح بخاری۔حدیث ۔6265)4۔لفظ (فلیقل) چاہیے کہ کہے سے استدلال ہے کہ تشہد پڑھنا واجب ہے۔5۔سلام سے پہلے دین ودنیا کی حاجات کی طلب بھی مستحب ہے۔اور یہ دعا کا بہترین وقت اور مقام ہے۔
1۔تشہد کے تمام صیغوں میں یہ صیغے صحیح ترین ہیںَ2۔(التحیات۔تحیہ)کی جمع ہے اورا س کے معنی ہے۔سلامتی ۔بقا۔عظمت ۔بے عیب ہونا۔اور ملک وملکیت۔اور بقول علامہ خظابی وبغوی۔یہ لفظ تعظیم کے تمام تر معانی پر مشتمل ہے۔(الصلواۃ)صلاۃ کی جمع ہے۔یعنی عبادت ۔رحمت دعایئں۔اسی سے مخصوص ہیں۔(الطیبات)طیبۃ کی جمع ہے۔یعنی زکر اذکار اعمال صالح اور اچھی باتیں۔ایک قول یہ بھی ہے کہ التحیات سے قولی عبادات الصلواۃ سے فعلی عبادات اور الطیبات سے مالی عبادات مراد ہیں۔دیکھئے (نیل الاوطار۔311۔213/2۔(3)(السلام علیک ایھاالنبی ورحمۃ اللہ ) میں غائب کی بجائے صیغہ خظاب کا درود نبی کریمﷺکی تعلیم ہے۔اور اس کی حقیقی حکمت اللہ ہی بہترجانتاہے۔بظاہر یوں ہے کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ کےلئے اپنے تحیات پیش کرتا ہے۔تو اسے یاد دلایاگیا ہے کہ یہ سب کچھ تمھیں نبی کریمﷺ کے ذریعے سے ملا ہے۔اس لئے بندہ نبی کریم ﷺ کو اپنے ذہن میں مستحضر کر کے آپ کوصیغہ خظاب سے سلام پیش کرتا ہے۔ کچھ لوگوں کا اصرا ر ہے کہ ان الفاظ میں براہ راست رسول اللہ ﷺ کوسنوانا مقصود ہے۔ یہ خیال برحق اوردرست نہیں ہے۔کیونکہ اس انداز میں خطاب ہمیشہ سنوانے کےلئے نہیں ہوتا اور اس کی دلیل سنن نسائی کی درج زیل حدیث ہے۔حضرت ابو رافع بیان کرتے ہیں۔ كان رسول الله صلي الله عليه وسلم اذا صلي العصر ذهب الي بني عبد الاشهل فيتحدث عندهم حتي ينحدر للمغرب قال ابو رافع فبينما النبي الله صلي الله عليه وسلم يسرع الي المغرب مررنا بالبقيع فقال اف لك اف لك قالز فكبر ذلك في ذرعي فاستاخرت وظننت انه يريدني فقال ...ما لك؟ امش. فقلت احدث حدث قال ما ذلك؟ قلت اففت بي قال لاولكن هذا فلان بعثته ساعيا علي بيني فلان فغل نمرة فلرع الان مثلها من نار (سنن نسائی۔الامامۃ۔حدیث 863) رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد قبیلہ بنو عبدالاشھل کے پاس جاتے اور گفتگو میں مشغول رہتے تھے۔ حتیٰ کے مغرب کے قریب واپس تشریف لاتے۔ ابو رافع کہتے ہیں کہ ایک دن نبی کریم ﷺنماز مغرب کے لئے جلدی جلدی تشریف لا رہے تھےاورہم بقیع کے پاس سے گزر رہے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا۔افسو س ہے تجھ پر افسوس ہے تجھ پر ابو رافع کہتے ہیں کہ اس پر مجھے گرانی محسوس ہوئی۔ اور میں پیچھے ہوگیا۔میں نے سمجھاکہ شاید آپ میرا ارادہ فرما رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا ہوا۔؟ آگے چلو۔میں نے عرض کیا حضرت کیا کوئی بات ہوئی ہے۔؟فرمایا کیا ہوا ہے۔؟میں نے کہا آپ نے مجھ پر افسوس کااظہا ر فرمایا ہے۔ فرمایا۔نہیں اس فلاںشخص کومیں نے فلاں قبیلے کے پاس عامل بنا کر بھیجا تھا تو اس نے مال میں سے ایک دھاری دارچادر چھپالی۔چنانچہ اب اسے اسطرح آگ کی چادر پہنائی گئی ہے۔ اس حدیث میں جب رسول اللہ ﷺ کو اس کا منظر دیکھایاگیا۔تو آ پ ﷺ نے اس پرصیغہ خطاب سے افسوس کا اظہار فرمایا۔اس طرح نیا چاند یکھنے کی دعا میں ہے۔ اللهم اهله علينا بالامن والايمان والسلامة والاسلام ربي وربك الله (مستدک حاکم۔285/4۔حدیث ۔7767) اے اللہ!۔۔۔اے چاند۔میرا اور تیرا رب اللہ ہے۔یہاں چاند کوسنوانا مقصود نہیں بلکہ تعلیم نبی ﷺ ہے۔الغرض تشہد میں نبی کریم ﷺ کے لئے صیغہ خطاب اسماع (سنوانے) کے لئے نہیں۔بلکہ تعلیم نبی ﷺ کی بنا پرہے۔واللہ اعلم۔اگر سنوانا مقصود ہوتا تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا وغیرہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد سلام کے صیغہ خطاب کو صیغہ غیب سے ہرگز تبدیل نہ کرتے اور (السلام علی النبیﷺ)نہ پڑھتے۔اور نہ اس کی تعلیم دیتے۔دیکھئے۔(صحیح بخاری۔حدیث ۔6265)4۔لفظ (فلیقل) چاہیے کہ کہے سے استدلال ہے کہ تشہد پڑھنا واجب ہے۔5۔سلام سے پہلے دین ودنیا کی حاجات کی طلب بھی مستحب ہے۔اور یہ دعا کا بہترین وقت اور مقام ہے۔