كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ مَا يُجْزِئُ مِنْ الْمَاءِ فِي الْوُضُوءِ سكت عنه الشيخ الألباني حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ حَدَّثَنَا شَرِيكٌ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبْرٍ عَنْ أَنَسٍ قَالَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ بِإِنَاءٍ يَسَعُ رَطْلَيْنِ وَيَغْتَسِلُ بِالصَّاعِ قَالَ أَبُو دَاوُد رَوَاهُ يَحْيَى بْنُ آدَمَ عَنْ شَرِيكٍ قَالَ عَنْ ابْنِ جَبْرِ بْنِ عَتِيكٍ قَالَ وَرَوَاهُ سُفْيَانُ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى حَدَّثَنِي جَبْرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَبُو دَاوُد وَرَوَاهُ شُعْبَةُ قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَبْرٍ سَمِعْتُ أَنَسًا إِلَّا أَنَّهُ قَالَ يَتَوَضَّأُ بِمَكُّوكٍ وَلَمْ يَذْكُرْ رَطْلَيْنِ قَالَ أَبُو دَاوُد و سَمِعْت أَحْمَدَ بْنَ حَنْبَلٍ يَقُولُ الصَّاعُ خَمْسَةُ أَرْطَالٍ وَهُوَ صَاعُ ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ وَهُوَ صَاعُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
کتاب: طہارت کے مسائل
باب: وضو کے لیے کس قدر پانی کافی ہے؟
سیدنا انس ؓ کہتے ہیں کہنبی کریم ﷺ ایسے برتن سے وضو کیا کرتے تھے جس میں دو رطل پانی آتا تھا اور آپ ﷺ ایک صاع ( پانی ) سے غسل فر لیا کرتے تھے ۔ امام ابوداؤد ؓ نے ( سیدنا انس ؓ سے روایت کرنے والے شاگردوں کے نام اور اسناد میں اختلاف کا ذکر کرتے ہوئے ) کہا کہ شعبہ نے کہا «حدثني عبد الله بن عبد الله بن جبر سمعت أنسا» مگر اس میں ہے کہ آپ «مکوک» ( ایک مد ) سے وضو کرتے تھے ۔ اس میں دو رطل کا ذکر نہیں ہے ۔ «يحيى بن آدم عن شريك» کی روایت میں ہے «عن ابن جبر بن عتيك» جبکہ سفیان کی روایت میں «عن عبد الله بن عيسى حدثني جبر بن عبد الله» آیا ہے ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل ؓ کو سنا وہ کہتے تھے کہ صاع پانچ رطل ہے ۔ ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ یہی صاع ابن ابی ذئب کا ہے اور نبی کریم ﷺ کا صاع اسی طرح کا تھا ۔
تشریح :
فوائد و مسائل:(1)پانی کی مذکورہ مقدار تحدید کے لیے نہیں بلکہ کفایت و ترغیب کے لیے ہے اور اشارہ ہے کہ پانی کم از کم استعمال کرنا چاہئے، بے جا استعمال اور ضیاع ناجائز ہے۔ (2) صاع اور مد چیزوں کے بھرنے کے پیمانے ہیں۔ ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں اور مختلف ادوار میں ان کا پیمانہ مختلف ہوتا رہا ہے۔ موجودہ پیمانے کے معیار سے مدنی صاع کی مقدار تین لیٹر دو سو ملی لیٹر، اور ایک مد کی مقدار آٹھ سو ملی لیٹر بنتی ہے۔
ملحوظ:دور نبوی کا مد، جس کا آخری باب میں ذکر آیا ہے، اس کا ایک نمونہ راقم مترجم کو اپنے والد گرامی مولانا ابوسعید عبدالعزیز سعیدی رحمہ اللہ سے وراثت میں ملا ہے جس کی سند تعدیل و مماثلت حضرت مولانا احمداللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ سے سترہ واسطوں سےحضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ تک پہنچی ہے۔ یہ دین اسلام کی حقانیت کی ایک ادنیٰ دلیل ہے کہ اس کے اصول تا حال محفوظ ہیں۔ الحمد للہ علی ذلك . شرعی پیمانوں میں حرمین کے پیمانے ہی معتبر ہیں جیسے کہ سنن ابی داؤد كي حدیث :3340 میں ہے کہ «الوزن وزن أهل مكة والمكيال مكيال أهل المدينة» ’’یعنی وزن اہل مکہ کا معتبر ہے اور بھرنے کا ماپ اہل مدینہ کا۔‘‘
فوائد و مسائل:(1)پانی کی مذکورہ مقدار تحدید کے لیے نہیں بلکہ کفایت و ترغیب کے لیے ہے اور اشارہ ہے کہ پانی کم از کم استعمال کرنا چاہئے، بے جا استعمال اور ضیاع ناجائز ہے۔ (2) صاع اور مد چیزوں کے بھرنے کے پیمانے ہیں۔ ایک صاع میں چار مد ہوتے ہیں اور مختلف ادوار میں ان کا پیمانہ مختلف ہوتا رہا ہے۔ موجودہ پیمانے کے معیار سے مدنی صاع کی مقدار تین لیٹر دو سو ملی لیٹر، اور ایک مد کی مقدار آٹھ سو ملی لیٹر بنتی ہے۔
ملحوظ:دور نبوی کا مد، جس کا آخری باب میں ذکر آیا ہے، اس کا ایک نمونہ راقم مترجم کو اپنے والد گرامی مولانا ابوسعید عبدالعزیز سعیدی رحمہ اللہ سے وراثت میں ملا ہے جس کی سند تعدیل و مماثلت حضرت مولانا احمداللہ صاحب دہلوی رحمہ اللہ سے سترہ واسطوں سےحضرت زیدبن ثابت رضی اللہ عنہ تک پہنچی ہے۔ یہ دین اسلام کی حقانیت کی ایک ادنیٰ دلیل ہے کہ اس کے اصول تا حال محفوظ ہیں۔ الحمد للہ علی ذلك . شرعی پیمانوں میں حرمین کے پیمانے ہی معتبر ہیں جیسے کہ سنن ابی داؤد كي حدیث :3340 میں ہے کہ «الوزن وزن أهل مكة والمكيال مكيال أهل المدينة» ’’یعنی وزن اہل مکہ کا معتبر ہے اور بھرنے کا ماپ اہل مدینہ کا۔‘‘