کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ التَّصْفِيقِ فِي الصَّلَاةِ صحیح حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: كَانَ قِتَالٌ بَيْنَ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ، فَبَلَغَ ذَلِكَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَاهُمْ لِيُصْلِحَ بَيْنَهُمْ بَعْدَ الظُّهْرِ، فَقَالَ لِبِلَالٍ: >إِنْ حَضَرَتْ صَلَاةُ الْعَصْرِ، وَلَمْ آتِكَ, فَمُرْ أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ<، فَلَمَّا حَضَرَتِ الْعَصْرُ أَذَّنَ بِلَالٌ، ثُمَّ أَقَامَ ثُمَّ أَمَرَ أَبَا بَكْرٍ فَتَقَدَّمَ... قَالَ فِي آخِرِهِ: >إِذَا نَابَكُمْ شَيْءٌ فِي الصَّلَاةِ, فَلْيُسَبِّحِ الرِّجَالُ، وَلْيُصَفِّحِ النِّسَاءُ
کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
باب: نماز میں تالی بجانا
سیدنا سہل بن سعد ؓ بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں کوئی جھگڑا ہو گیا تھا ۔ نبی کریم ﷺ کو خبر پہنچی تو آپ ظہر کے بعد ان میں صلح کرانے کے لیے تشریف لے گئے اور بلال سے فر گئے ” اگر نماز عصر کا وقت ہو جائے اور میں نہ پہنچ سکوں تو ابوبکر سے کہنا کہ لوگوں کو نماز پڑھا دیں ۔ “ چنانچہ جب عصر کا وقت ہوا سیدنا بلال ؓ نے اذان کہی ، پھر اقامت کہی اور سیدنا ابوبکر ؓ سے نماز پڑھانے کو کہا ، وہ آگے بڑھ گئے ۔ اس روایت کے آخر میں ہے ” جب تمہیں نماز میں کوئی عارض پیش آ جائے تو مرد «سبحان الله» کہا کریں اور عورتیں تالی بجائیں ۔ “
تشریح :
1۔مسلمانوں میں کہیں جھگڑا ہوجائے۔تو اولین فرصت میں ان میں صلح کرانے کی کوشش کی جائے۔اور بالخصوص آئمہ قوم اور زی وجاہت افراد کو اس میں سبقت کرنی چاہیے۔2۔امام مقرر کو چاہیے کہ متوقع غیر حاضری کی صورت میں اپنا نائب مقرر کر کے جائے۔3۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺکے قابل اعتماد نائب تھے۔اور امت نے آپ کے اسی مقام کی وجہ سے انھیں منصب خلافت کےلئے منتخب کیا۔4۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقام خلافت کو خوب پہچانتے تھے۔ کہ آپ کے ہوتے ہوئے کسی طرح مناسب نہیں کہ آگے رہ کر نماز پڑھائی جائے۔یہ خصوصیت صرف اور صرف رسول اللہ ﷺکےلئے تھی۔امت میں کسی اور کا یہ مقام نہیں ہے۔اور یہی وجہ تھی کہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے بھی بے چینی کا انتظار کرتے ہوئے تالیاں بجایئں۔5۔لاعلمی سے جو عمل ہوجائے وہ معاف ہے۔ جیسے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے تالیاں بجایئں۔مگرعلماء پر لازم ہے کہ اس کی اصلاح کریں۔تاکہ پھر اس کا اعادہ نہ ہونے پائے۔ 6۔اثنائے قرات میں حمد اوردعا کےلئے ہاتھ اٹھا لینے جائز ہیں۔
1۔مسلمانوں میں کہیں جھگڑا ہوجائے۔تو اولین فرصت میں ان میں صلح کرانے کی کوشش کی جائے۔اور بالخصوص آئمہ قوم اور زی وجاہت افراد کو اس میں سبقت کرنی چاہیے۔2۔امام مقرر کو چاہیے کہ متوقع غیر حاضری کی صورت میں اپنا نائب مقرر کر کے جائے۔3۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ ﷺکے قابل اعتماد نائب تھے۔اور امت نے آپ کے اسی مقام کی وجہ سے انھیں منصب خلافت کےلئے منتخب کیا۔4۔حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مقام خلافت کو خوب پہچانتے تھے۔ کہ آپ کے ہوتے ہوئے کسی طرح مناسب نہیں کہ آگے رہ کر نماز پڑھائی جائے۔یہ خصوصیت صرف اور صرف رسول اللہ ﷺکےلئے تھی۔امت میں کسی اور کا یہ مقام نہیں ہے۔اور یہی وجہ تھی کہ دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے بھی بے چینی کا انتظار کرتے ہوئے تالیاں بجایئں۔5۔لاعلمی سے جو عمل ہوجائے وہ معاف ہے۔ جیسے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے تالیاں بجایئں۔مگرعلماء پر لازم ہے کہ اس کی اصلاح کریں۔تاکہ پھر اس کا اعادہ نہ ہونے پائے۔ 6۔اثنائے قرات میں حمد اوردعا کےلئے ہاتھ اٹھا لینے جائز ہیں۔