Book - حدیث 929

کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ رَدِّ السَّلَامِ فِي الصَّلَاةِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، أَخْبَرَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ هِشَامٍ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ أُرَاهُ رَفَعَهُ، قَال:َ لَا غِرَارَ فِي تَسْلِيمٍ وَلَا صَلَاةٍ. قَالَ أَبو دَاود: وَرَوَاهُ ابْنُ فُضَيْلٍ عَلَى لَفْظِ ابْنِ مَهْدِيٍّ وَلَمْ يَرْفَعْهُ.

ترجمہ Book - حدیث 929

کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل باب: نماز کے دوران میں سلام کا جواب دینا سیدنا ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ معاویہ نے کہا : میرا خیال ہے کہ انہوں نے مرفوع بیان کیا ۔ ” سلام میں اور نماز میں نقص نہیں ۔ “ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں : ابن فضیل نے ابن مہدی کی ( سابقہ روایت ) کی مانند روایت کیا اور مرفوع نہیں کیا ۔
تشریح : 1۔(غرار)کالفظی معنی نقص اور کمی کرنا ہے۔نماز میں کمی دو طرح سے ہوسکتی ہے۔ایک یہ کہ انسان اس کے رکوع اور سجود صحیح طور سے ادا نہ کرے۔ارکان جلدی جلدی ادا کرے۔اس سے نماز ناقص رہ جاتی ہے۔ بلکہ ہوتی ہی نہیں۔ دوسری صورت شک ہونے کی ہے۔کہ مثلا تین یا چار رکعت میں شک ہوا کہ نہ معلوم کتنی رکعت پڑھی ہیں۔تو انسان سمجھے کہ بس جتنی بھی ہوگئی ہے پوری ہوگئی ہے۔یا وہ اسے چار رکعت ہی شمار کرلے۔یہ کیفیت بھی نماز میں نقص ہے۔چاہیے کہ بندہ یقین اور اعتماد سے نماز پوری پڑھے۔یعنی اسے چار نہیں۔تین رکعت شمار کرلے۔سلام میں نقص یوں ہے کہ سلام کہنے والے کو اس کے الفاظ کا پورا پورا جواب نہ دیا جائے۔اگر زیادہ نہیں کہتا تو اسے پورے الفاظ سے جواب دے۔ان میں کمی نہ کرے۔مثلا کہنے والے نے السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ کہا ہے تو جواب میں وعلیکم السلام پرکفایت مناسب نہیں۔امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ (اذا سلم عليكم المسلم فردوا عليه افضل مما سلم اوردوا عليه بمثل ما سلم فالزيادة مندوبة والمماثلة مفروضة) یعنی جب تمھیں کوئی مسلمان سلام کہے تو اس کے سلام کا جواب اس کے سلام سے افضل الفاظ سے دو یا کم از کم اس کےسلام کے مثل جواب دو۔افضل جواب دینامستحب اور سلام کے مثل جواب دینا ضروری اور فرض ہے۔(تفسیر ابن کثیر ج۔1تفسیر سورہ نساء۔آیت 86)واللہ اعلم۔2۔اس حدیث سے یہ استدلال کہ نمازی کو سلام نہ کہا جائے اور وہ بھی جواب نہ دے صحیح نہیں۔کیونکہ صحیح ترین احادیث سے نمازی کو سلام کہنے اور اشارے سے جواب دینے کی صراحت ثابت ہے۔(مثلا مذکورہ بالا حدیث 927)اس لئے اس حدیث میں سلام کا جواب نہ دینے کی جو بات ہے۔وہ اولا تو اس سے منہ سے الفاظ کے ساتھ جواب نہ دینا مراد ہے۔ثانیا جواب دینے والی روایات قوی اور صریح ہیں۔اس بنا پر ان کو ترجیح ہوگی۔اور نماز میں سلام کا جواب اشارے سے دینا صحیح ہوگا۔ 1۔(غرار)کالفظی معنی نقص اور کمی کرنا ہے۔نماز میں کمی دو طرح سے ہوسکتی ہے۔ایک یہ کہ انسان اس کے رکوع اور سجود صحیح طور سے ادا نہ کرے۔ارکان جلدی جلدی ادا کرے۔اس سے نماز ناقص رہ جاتی ہے۔ بلکہ ہوتی ہی نہیں۔ دوسری صورت شک ہونے کی ہے۔کہ مثلا تین یا چار رکعت میں شک ہوا کہ نہ معلوم کتنی رکعت پڑھی ہیں۔تو انسان سمجھے کہ بس جتنی بھی ہوگئی ہے پوری ہوگئی ہے۔یا وہ اسے چار رکعت ہی شمار کرلے۔یہ کیفیت بھی نماز میں نقص ہے۔چاہیے کہ بندہ یقین اور اعتماد سے نماز پوری پڑھے۔یعنی اسے چار نہیں۔تین رکعت شمار کرلے۔سلام میں نقص یوں ہے کہ سلام کہنے والے کو اس کے الفاظ کا پورا پورا جواب نہ دیا جائے۔اگر زیادہ نہیں کہتا تو اسے پورے الفاظ سے جواب دے۔ان میں کمی نہ کرے۔مثلا کہنے والے نے السلام و علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاۃ کہا ہے تو جواب میں وعلیکم السلام پرکفایت مناسب نہیں۔امام ابن کثیر فرماتے ہیں۔ (اذا سلم عليكم المسلم فردوا عليه افضل مما سلم اوردوا عليه بمثل ما سلم فالزيادة مندوبة والمماثلة مفروضة) یعنی جب تمھیں کوئی مسلمان سلام کہے تو اس کے سلام کا جواب اس کے سلام سے افضل الفاظ سے دو یا کم از کم اس کےسلام کے مثل جواب دو۔افضل جواب دینامستحب اور سلام کے مثل جواب دینا ضروری اور فرض ہے۔(تفسیر ابن کثیر ج۔1تفسیر سورہ نساء۔آیت 86)واللہ اعلم۔2۔اس حدیث سے یہ استدلال کہ نمازی کو سلام نہ کہا جائے اور وہ بھی جواب نہ دے صحیح نہیں۔کیونکہ صحیح ترین احادیث سے نمازی کو سلام کہنے اور اشارے سے جواب دینے کی صراحت ثابت ہے۔(مثلا مذکورہ بالا حدیث 927)اس لئے اس حدیث میں سلام کا جواب نہ دینے کی جو بات ہے۔وہ اولا تو اس سے منہ سے الفاظ کے ساتھ جواب نہ دینا مراد ہے۔ثانیا جواب دینے والی روایات قوی اور صریح ہیں۔اس بنا پر ان کو ترجیح ہوگی۔اور نماز میں سلام کا جواب اشارے سے دینا صحیح ہوگا۔