کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ الْعَمَلِ فِي الصَّلَاةِ ضعیف حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ- صَاحِبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ نَنْتَظِرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلصَّلَاةِ فِي الظُّهْرِ أَوِ الْعَصْرِ- وَقَدْ دَعَاهُ بِلَالٌ لِلصَّلَاةِ- إِذْ خَرَجَ إِلَيْنَا وَأُمَامَةُ بِنْتُ أَبِي الْعَاصِ- بِنْتُ ابْنَتِهِ- عَلَى عُنُقِهِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مُصَلَّاهُ، وَقُمْنَا خَلْفَهُ، وَهِيَ فِي مَكَانِهَا الَّذِي هِيَ فِيهِ، قَالَ: فَكَبَّرَ، فَكَبَّرْنَا، قَالَ: حَتَّى إِذَا أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْكَعَ أَخَذَهَا فَوَضَعَهَا، ثُمَّ رَكَعَ وَسَجَدَ، حَتَّى إِذَا فَرَغَ مِنْ سُجُودِهِ، ثُمَّ قَامَ أَخَذَهَا, فَرَدَّهَا فِي مَكَانِهَا/ فَمَا زَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ بِهَا ذَلِكَ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، حَتَّى فَرَغَ مِنْ صَلَاتِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
باب: نماز میں عمل ( حرکات وغیرہ جو مباح ہیں)
سیدنا ابوقتادہ صحابی رسول ﷺ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ ایک بار ہم نماز کے لیے رسول اللہ ﷺ کا انتظار کر رہے تھے ، نماز ظہر کی تھی یا عصر کی ۔ اور سیدنا بلال ؓ نے آپ ﷺ کو نماز کے لیے بلایا ۔ جب آپ ﷺ تشریف لائے تو امامہ بنت ابی العاص یعنی آپ ﷺ کی صاحبزادی ( سیدہ زینب ؓا ) کی بیٹی آپ ﷺ کی گردن پر تھی ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ اپنے مصلے پر کھڑے ہوئے اور ہم بھی آپ ﷺ کے پیچھے کھڑے ہو گئے جب کہ وہ بچی اپنی اسی جگہ پر تھی ( یعنی آپ ﷺ کی گردن پر ) ۔ آپ ﷺ نے تکبیر کہی تو ہم نے بھی تکبیر کہی ۔ حتیٰ کہ جب رسول اللہ ﷺ نے رکوع کرنا چاہا تو اسے پکڑ کر بٹھا دیا ، پھر رکوع کیا اور سجدہ کیا ۔ جب آپ ﷺ اپنے سجدے سے فارغ ہوئے اور کھڑے ہوئے تو اسے پھر گردن ( کندھے ) پر بٹھا لیا ۔ رسول اللہ ﷺ ہر رکعت میں ایسے ہی کرتے رہے ، حتیٰ کہ اپنی نماز سے فارغ ہو گئے ۔
تشریح :
۔اس آخری روایت کی سابقہ احادیث سے تایئد ہوتی ہے۔2۔حضر ت امامہ بنت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بموجب ان کی وصیت کے نکاح کرلیا تھا مگر ان سے اولاد نہیں ہوئی۔2۔رسول اللہ ﷺ کو بچوں سے بہت ہی پیار تھا۔اور آپ ﷺ ان سے کسی طرح پریشان نہ ہوتے تھے۔2۔کچھ فقہاءکرام نے نبی کریم ﷺ کے اس عمل کو آپ ﷺ سے مخصوص باور کرانے کی کوشش کی ہے مگر حق یہ ہے کہ ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے۔جس کے تحت اس قسم کے اعمال کو آپ سے مخصو ص کیا جاسکے۔بلکہ اس میں امت کےلئے اسوہ ہے۔ماں باپ کو اس قسم کی صورت حال کا اکثر سامنا رہتا ہے۔اور بعض احوال میں امام یا مقتدی کو بھی ایسی صورت پیش آسکتی ہے۔5۔چھوٹے بچوں کے جسم اور کپڑے طہارت پرمحمول ہوتے ہیں۔ اور انہیں مسجد میں لے آنا جائز ہے۔(مگر ایک حد تک)۔6۔نماز میں عمل قلیل ہو یا کثیر مباح ہے۔بشرط یہ ہے کہ قبلے سے انحراف نہ ہو۔جیسے کہ اس حدیث میں نبی ﷺ نے اپنی نواسی کو نیچے اتارا پھراٹھایا اور بار بار ایسے کیا۔
۔اس آخری روایت کی سابقہ احادیث سے تایئد ہوتی ہے۔2۔حضر ت امامہ بنت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔سے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بموجب ان کی وصیت کے نکاح کرلیا تھا مگر ان سے اولاد نہیں ہوئی۔2۔رسول اللہ ﷺ کو بچوں سے بہت ہی پیار تھا۔اور آپ ﷺ ان سے کسی طرح پریشان نہ ہوتے تھے۔2۔کچھ فقہاءکرام نے نبی کریم ﷺ کے اس عمل کو آپ ﷺ سے مخصوص باور کرانے کی کوشش کی ہے مگر حق یہ ہے کہ ایسا کوئی قرینہ نہیں ہے۔جس کے تحت اس قسم کے اعمال کو آپ سے مخصو ص کیا جاسکے۔بلکہ اس میں امت کےلئے اسوہ ہے۔ماں باپ کو اس قسم کی صورت حال کا اکثر سامنا رہتا ہے۔اور بعض احوال میں امام یا مقتدی کو بھی ایسی صورت پیش آسکتی ہے۔5۔چھوٹے بچوں کے جسم اور کپڑے طہارت پرمحمول ہوتے ہیں۔ اور انہیں مسجد میں لے آنا جائز ہے۔(مگر ایک حد تک)۔6۔نماز میں عمل قلیل ہو یا کثیر مباح ہے۔بشرط یہ ہے کہ قبلے سے انحراف نہ ہو۔جیسے کہ اس حدیث میں نبی ﷺ نے اپنی نواسی کو نیچے اتارا پھراٹھایا اور بار بار ایسے کیا۔