Book - حدیث 893

کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ فِي الرَّجُلِ يُدْرِكُ الْإِمَامَ سَاجِدًا كَيْفَ يَصْنَعُ حسن حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْحَكَمِ حَدَّثَهُمْ أَخْبَرَنَا نَافِعُ بْنُ يَزِيدَ حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَبِي الْعَتَّابِ وَابْنِ الْمَقْبُرِيِّ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا جِئْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ وَنَحْنُ سُجُودٌ فَاسْجُدُوا وَلَا تَعُدُّوهَا شَيْئًا وَمَنْ أَدْرَكَ الرَّكْعَةَ فَقَدْ أَدْرَكَ الصَّلَاةَ

ترجمہ Book - حدیث 893

کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل باب: آدمی جب امام کو سجدے میں پائے تو کیسے کرے ؟ سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جب تم نماز کے لیے آؤ اور ہم سجدے میں ہوں تو تم بھی سجدہ کرو اور اسے کچھ شمار نہ کرو - اور جس نے رکعت کو پا لیا اس نے نماز کو پا لیا ۔ “
تشریح : مسبوق یعنی امام سے پیچھےرہ جانے والا تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز شروع کرے۔اور امام کے ساتھ مل جائے۔وہ جس حالت میں بھی ہو۔2۔زیر نظر حدیث میں (الرکعۃ)کا ترجمہ ہم نے رکعت کیا ہے۔جب کہ کچھ علماء یہاں اس سے مراد رکوع لیتے ہیں۔ہمارے مشائخ اور علمائے پاک و ہند کی ایک کثیر تعداد اس سے رکعت ہی مراد لیتی ہے۔اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہی منقو ل ہے۔جیسے کہ شوکانی نے نیل الاوطار (2/245۔244) میں یہ بحث کی ہے۔وہ تمام حضرات آئمہ کرام جو وجوب فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں۔وہ رکوع کی رکعت کے قائل نہیں ہیں۔امام بخاری ۔امام ابن خزیمہ۔تقی الدین سبکی۔اور دیگر علمائے شافعیہ اسی طرف گئے ہیں۔تا ہم رکوع میں مل جانے سے رکعت کے قائلین کی تعداد بھی کافی ہے۔مگرراحج یہی ہے۔کہ رکعت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے۔ایک قیام اوردوسری قراءت اور رکوع میں ملنے والا ان دونوں سے محروم رہتا ہے۔لہذا رکوع میں ملنے سے رکعت کو دہرانا زیادہ راحج ہے۔واللہ اعلم۔اور اس قسم کے مسائل میں عوام الناس کو اپنے ہاں کے قابل اعتماد محقق علماء سے رابطہ کرنا چاہیے۔2۔مدرک رکوع کے مسئلے کی مذید وضاحت کےلئے ملاحظہ ہوحدیث نمبر 283) کے فوائد۔ مسبوق یعنی امام سے پیچھےرہ جانے والا تکبیر تحریمہ کہہ کر نماز شروع کرے۔اور امام کے ساتھ مل جائے۔وہ جس حالت میں بھی ہو۔2۔زیر نظر حدیث میں (الرکعۃ)کا ترجمہ ہم نے رکعت کیا ہے۔جب کہ کچھ علماء یہاں اس سے مراد رکوع لیتے ہیں۔ہمارے مشائخ اور علمائے پاک و ہند کی ایک کثیر تعداد اس سے رکعت ہی مراد لیتی ہے۔اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہی منقو ل ہے۔جیسے کہ شوکانی نے نیل الاوطار (2/245۔244) میں یہ بحث کی ہے۔وہ تمام حضرات آئمہ کرام جو وجوب فاتحہ خلف الامام کے قائل ہیں۔وہ رکوع کی رکعت کے قائل نہیں ہیں۔امام بخاری ۔امام ابن خزیمہ۔تقی الدین سبکی۔اور دیگر علمائے شافعیہ اسی طرف گئے ہیں۔تا ہم رکوع میں مل جانے سے رکعت کے قائلین کی تعداد بھی کافی ہے۔مگرراحج یہی ہے۔کہ رکعت دو چیزوں سے مرکب ہوتی ہے۔ایک قیام اوردوسری قراءت اور رکوع میں ملنے والا ان دونوں سے محروم رہتا ہے۔لہذا رکوع میں ملنے سے رکعت کو دہرانا زیادہ راحج ہے۔واللہ اعلم۔اور اس قسم کے مسائل میں عوام الناس کو اپنے ہاں کے قابل اعتماد محقق علماء سے رابطہ کرنا چاہیے۔2۔مدرک رکوع کے مسئلے کی مذید وضاحت کےلئے ملاحظہ ہوحدیث نمبر 283) کے فوائد۔