Book - حدیث 89

كِتَابُ الطَّهَارَةِ بَابُ أَيُصَلِّي الرَّجُلُ وَهُوَ حَاقِنٌ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَنْبَلٍ وَمُسَدَّدٌ وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى الْمَعْنَى قَالُوا حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي حَزْرَةَ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ ابْنُ عِيسَى فِي حَدِيثِهِ ابْنُ أَبِي بَكْرٍ ثُمَّ اتَّفَقُوا أَخُو الْقَاسِمِ بْنِ مُحَمَّدٍ قَالَ كُنَّا عِنْدَ عَائِشَةَ فَجِيءَ بِطَعَامِهَا فَقَامَ الْقَاسِمُ يُصَلِّي فَقَالَتْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لَا يُصَلَّى بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ وَلَا وَهُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ

ترجمہ Book - حدیث 89

کتاب: طہارت کے مسائل باب: پیشاب پاخانہ کی حاجت ہونے کی حالت میں نماز پڑھنا کیسا ہے؟ جناب عبداللہ بن محمد بن ابی بکر ( قاسم بن محمد بن ابی بکر الصدیق کے بھائی ) سے روایت ہے کہ ہم سیدہ عائشہ ؓا کے ہاں تھے کہ اس اثنا میں ان کا کھانا آ گیا ، تو جناب قاسم کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے ۔ سیدہ عائشہ ؓا نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے ” جب کھانا حاضر ہو تو نماز نہ پڑھی جائے نیز ایسی حالت میں بھی کہ آدمی پیشاب پاخانے کو روک رہا ہو ۔ “
تشریح : فوائد و مسائل: (1) اس روایت کا ایک پس منظر ہے کہ جناب قاسم بن محمد کی والدہ ام ولد(لونڈی) تھیں اور اس کی تربیت کے اثر سے جناب قاسم کے عربی تکلم میں قدرے لحن تھا۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں تادیب کی تو وہ کچھ خفا ہوگئے اور کھانا چھوڑ کر نماز پڑھنے لگے۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یہ حدیث سنائی اور امربالمعروف کا فریضہ ادا کیا۔(2) خیال رہے کہ بھوک اور قضائے حاجت ایسے فطری امور ہیں جوانسان کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔ شریعت نے خصوصی طور پر ان سے فراغت حاصل کر لینے کا حکم دیا ہے، مگر ایسے اعمال جو انسان کے اپنے بس میں ہوں مثلاً کوئی کام ادھورا رہا ہو یا ویسے ہی ذہن پر سوار ہو تو دینی تقاضا یہ ہے کہ انسان ان امور سے اپنے آپ کو خالی الذہن کرکے نماز کی طرف متوجہ ہو اور اپنے کام یا تو قبل از نماز نمٹا لے یا بعد از نماز مکمل کرے، مثلاً سفر میں جمع بین الصلوٰتین کی رخصت موجود ہے۔ ماں کوبچہ پریشان کررہا ہو، تو اجازت ہے کہ اسے اٹھا کر نماز پڑھ لے۔ فوائد و مسائل: (1) اس روایت کا ایک پس منظر ہے کہ جناب قاسم بن محمد کی والدہ ام ولد(لونڈی) تھیں اور اس کی تربیت کے اثر سے جناب قاسم کے عربی تکلم میں قدرے لحن تھا۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں تادیب کی تو وہ کچھ خفا ہوگئے اور کھانا چھوڑ کر نماز پڑھنے لگے۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انہیں یہ حدیث سنائی اور امربالمعروف کا فریضہ ادا کیا۔(2) خیال رہے کہ بھوک اور قضائے حاجت ایسے فطری امور ہیں جوانسان کے اپنے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔ شریعت نے خصوصی طور پر ان سے فراغت حاصل کر لینے کا حکم دیا ہے، مگر ایسے اعمال جو انسان کے اپنے بس میں ہوں مثلاً کوئی کام ادھورا رہا ہو یا ویسے ہی ذہن پر سوار ہو تو دینی تقاضا یہ ہے کہ انسان ان امور سے اپنے آپ کو خالی الذہن کرکے نماز کی طرف متوجہ ہو اور اپنے کام یا تو قبل از نماز نمٹا لے یا بعد از نماز مکمل کرے، مثلاً سفر میں جمع بین الصلوٰتین کی رخصت موجود ہے۔ ماں کوبچہ پریشان کررہا ہو، تو اجازت ہے کہ اسے اٹھا کر نماز پڑھ لے۔