Book - حدیث 864

کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ كُلُّ صَلَاةٍ لَا يُتِمُّهَا صَاحِبُهَا تُتَمُّ مِنْ تَطَوُّعِهِ صحیح حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ أَنَسِ بْنِ حَكِيمٍ الضَّبِّيِّ، قَالَ: خَافَ مِنْ زِيَادٍ -أَوْ ابْنِ زِيَادٍ- فَأَتَى الْمَدِينَةَ، فَلَقِيَ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: فَنَسَبَنِي فَانْتَسَبْتُ لَهُ، فَقَالَ: يَا فَتَى! أَلَا أُحَدِّثُكَ حَدِيثًا؟ قَالَ: قُلْتُ: بَلَى, رَحِمَكَ اللَّهُ! -قَالَ: يُونُسُ وَأَحْسَبُهُ ذَكَرَهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، قَالَ: >إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ النَّاسُ بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ أَعْمَالِهِمْ: الصَّلَاةُ، قَالَ: يَقُولُ رَبُّنَا جَلَّ وَعَزَّ لِمَلَائِكَتِهِ -وَهُوَ أَعْلَمُ-: انْظُرُوا فِي صَلَاةِ عَبْدِي أَتَمَّهَا أَمْ نَقَصَهَا, فَإِنْ كَانَتْ تَامَّةً، كُتِبَتْ لَهُ تَامَّةً وَإِنْ كَانَ انْتَقَصَ مِنْهَا شَيْئًا, قَالَ: انْظُرُوا, هَلْ لِعَبْدِي مِنْ تَطَوُّعٍ؟ فَإِنْ كَانَ لَهُ تَطَوُّعٌ, قَالَ: أَتِمُّوا لِعَبْدِي فَرِيضَتَهُ مِنْ تَطَوُّعِهِ، ثُمَّ تُؤْخَذُ الْأَعْمَالُ عَلَى ذَاكُمْ<.

ترجمہ Book - حدیث 864

کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل باب: نبی کریم کا فرمان ہر وہ ( فرض ) نماز جسے نمازی نے پورا نہ کیا ہو ، اسے اس کے نوافل سے پورا کیا جائے گا انس بن حکیم ضبی سے مروی ہے ، کہا کہ فرشتوں سے فرمائے گا حالانکہ وہ ( پہلے ہی ) خوب جاننے والا ہے ، میرے بندے کی نماز دیکھو ! کیا اس نے اس کو پورا کیا ہے یا اس میں کوئی کمی ہے ؟ چنانچہ وہ اگر کامل ہوئی تو پوری کی پوری لکھ دی جائے گی اور اگر اس میں کوئی کمی ہوئی تو فرمائے گا کہ دیکھو ! کیا میرے بندے کے کچھ نوافل بھی ہیں ؟ اگر نفل ہوئے تو وہ فرمائے گا کہ میرے بندے کے فرضوں کو اس کے نفلوں سے پورا کر دو ۔ پھر اسی انداز سے دیگر اعمال لیے جائیں گے ۔ “
تشریح : یہ روایت شیخ البانی کے نزدیک صحیح ہے۔حدیث 866 اس کی مویئد ہے۔2۔قیامت کے روز اعمال کا محاسبہ حق ہے۔3۔شہادتین کے بعد نماز دین کا اہم ترین رکن ہے۔اور حقوق اللہ میں سے اسی کا سب سے پہلے حساب ہوگا۔(سنن نسائی حدیث۔466)جب کہ حقوق العباد میں سب سے پہلے خونوں کا حساب لیا جائے گا۔(صحیح بخاری۔حدیث6533 وصحیح مسلم حدیث 1678) 4۔فرائض کی ادائگی میں کسی بھی تقصیر سے انسان کو محتاط رہنا چاہیے۔نیز نوافل کا بھی خوب اہمتام کرنا چاہیے۔کیونکہ ان ہی سے فرضوں کی کمی پوری کی جائے گی۔5۔نوافل خصوصا سنن راتبہ (موکد)رسول اللہ ﷺکی سنت متواترہ ہیں۔سفر کے علاوہ آپ نے کبھی انھیں ترک نہیں فرمایا بلکہ بعض اوقات تاخیر ہونے پر ان کی قضا بھی ادا کی ہے۔کچھ صالحین کا کہنا ہے کہ سنن و نوافل کی پابندی فرائض پر پابندی کے لئے مہمیز کا کام دیتی ہے۔اور جو شخص سنن میں غفلت کرتا ہے۔عین ممکن ہے فرائض میں غفلت کا مرتکب ہوجائے۔6۔وہ احادیث جن میں رسول اللہ ﷺنے کچھ نو مسلم بدووں کو صرف فرائض کی پابندی کے عہد پر انہیں جنت کی خوش خبری دی۔وہ اول تو ابتدائے اسلام کی بات ہے۔یہی لوگ جوں جوں حق کو سمجھتے گئے۔نوافل میں بہت آگے بڑھتے چلے گئے۔جیسے کہ ان کی سیرتیں واضح کرتی ہیں۔دوسرے رسول اللہ ﷺکی صحبت مبارکہ سے انھیں ایسا تزکیہ حاصل ہوجاتا تھا۔ کہ ان کے فرائض ہی سے اس اعلیٰ پائے کہ ہوجاتے تھے کہ وہ نوافل بھی پڑھتے تو ان کی کامیابی کی ضمانت اور خوشخبری زبان رسالت سے جاری ہوگئی تھی۔ لہذا دیگر مسلمانوں کا اس معاملے میں اپنے آپ کو ان پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔اور صرف فرائض پر تکیہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔بلکہ یوم الحسرۃ کوپیش نظررکھتے ہوئے مذید در مذید تقرب الیٰ اللہ۔کو شش کرنی چاہیے۔وباللہ التوفیق۔ہاں بعض اوقات کسی عذر کی بنا پر سنتیں رہ جایئں تو ان کی قضا کرنا واجب نہیں ہے۔ یہ روایت شیخ البانی کے نزدیک صحیح ہے۔حدیث 866 اس کی مویئد ہے۔2۔قیامت کے روز اعمال کا محاسبہ حق ہے۔3۔شہادتین کے بعد نماز دین کا اہم ترین رکن ہے۔اور حقوق اللہ میں سے اسی کا سب سے پہلے حساب ہوگا۔(سنن نسائی حدیث۔466)جب کہ حقوق العباد میں سب سے پہلے خونوں کا حساب لیا جائے گا۔(صحیح بخاری۔حدیث6533 وصحیح مسلم حدیث 1678) 4۔فرائض کی ادائگی میں کسی بھی تقصیر سے انسان کو محتاط رہنا چاہیے۔نیز نوافل کا بھی خوب اہمتام کرنا چاہیے۔کیونکہ ان ہی سے فرضوں کی کمی پوری کی جائے گی۔5۔نوافل خصوصا سنن راتبہ (موکد)رسول اللہ ﷺکی سنت متواترہ ہیں۔سفر کے علاوہ آپ نے کبھی انھیں ترک نہیں فرمایا بلکہ بعض اوقات تاخیر ہونے پر ان کی قضا بھی ادا کی ہے۔کچھ صالحین کا کہنا ہے کہ سنن و نوافل کی پابندی فرائض پر پابندی کے لئے مہمیز کا کام دیتی ہے۔اور جو شخص سنن میں غفلت کرتا ہے۔عین ممکن ہے فرائض میں غفلت کا مرتکب ہوجائے۔6۔وہ احادیث جن میں رسول اللہ ﷺنے کچھ نو مسلم بدووں کو صرف فرائض کی پابندی کے عہد پر انہیں جنت کی خوش خبری دی۔وہ اول تو ابتدائے اسلام کی بات ہے۔یہی لوگ جوں جوں حق کو سمجھتے گئے۔نوافل میں بہت آگے بڑھتے چلے گئے۔جیسے کہ ان کی سیرتیں واضح کرتی ہیں۔دوسرے رسول اللہ ﷺکی صحبت مبارکہ سے انھیں ایسا تزکیہ حاصل ہوجاتا تھا۔ کہ ان کے فرائض ہی سے اس اعلیٰ پائے کہ ہوجاتے تھے کہ وہ نوافل بھی پڑھتے تو ان کی کامیابی کی ضمانت اور خوشخبری زبان رسالت سے جاری ہوگئی تھی۔ لہذا دیگر مسلمانوں کا اس معاملے میں اپنے آپ کو ان پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔اور صرف فرائض پر تکیہ کرنا ٹھیک نہیں ہے۔بلکہ یوم الحسرۃ کوپیش نظررکھتے ہوئے مذید در مذید تقرب الیٰ اللہ۔کو شش کرنی چاہیے۔وباللہ التوفیق۔ہاں بعض اوقات کسی عذر کی بنا پر سنتیں رہ جایئں تو ان کی قضا کرنا واجب نہیں ہے۔