Book - حدیث 829

کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ مَنْ رَأَى الْقِرَاءَةَ إِذَا لَمْ يَجْهَرْ الْإِمَامُ بِقِرَاءَتِهِ صحیح حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ عَنْ سَعِيدٍ عَنْ قَتَادَةَ عَنْ زُرَارَةَ عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِهِمْ الظُّهْرَ فَلَمَّا انْفَتَلَ قَالَ أَيُّكُمْ قَرَأَ بِسَبِّحْ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى فَقَالَ رَجُلٌ أَنَا فَقَالَ عَلِمْتُ أَنَّ بَعْضَكُمْ خَالَجَنِيهَا

ترجمہ Book - حدیث 829

کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل باب: ان حضرات کے دلائل جو سری نمازوں میں قرآت کے قائل ہیں سیدنا جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہماری مجلس میں تشریف لائے جب کہ ہم قرآن پڑھ رہے تھے ، ہم میں دیہاتی بھی تھے ، اور غیر عرب بھی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” پڑھے جاؤ ، سب ہی بہتر ہے ۔ عنقریب ایسے لوگ آئیں گے جو اسے ( قرآت قرآن کو ) ایسے سیدھا کریں گے جیسے کہ تیر سیدھا کیا جاتا ہے ۔ اس کا اجر ( دنیا میں ) جلد ہی لینا چاہیں گے اور ( آخرت تک ) مؤخر نہیں کریں گے ۔ “
تشریح : قرآن کریم کو لحن عرب میں پڑھنا مستحب اور مطلوب ہے۔ اور اس میں اپنی سی کوشش اور محنت کرتے رہنا چاہیے۔کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ مگر بدوی اور عجمی لوگوں کےلئے عربی اسلوب اور قواعد تجوید پر کماحقہ پورا اترنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے آپ نے مختلف طبقات کے لوگوں کی قراءت کی توثیق فرما کر امت پر آسانی اور احسان فرمایا ہے۔2۔ایسے لوگوں کا پیدا ہوجانا جو قراءت قرآن کو ریا شہرت اور حطام دنیا (دنیوی سازوسامان) جمع کرنے کا زریعہ بنا لیں۔آثار قیامت میں سے ہے۔3۔ظاہر الفاظ کی تجوید میں مبالغہ اور آواززیر وبم ہی کو قرات جاننا اور مفہوم و معنی سے صرف نظر کرلیناازحد معیوب ہے۔4۔تلاوت قرآن اور اس کے درس تدریس میں اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھنا واجب ہے۔5۔حدیث نبویﷺ (احق ما اخذتم عليه اجرا كتاب الله) سب سے عمدہ چیز جس پر تم اجر(عوض واجرت)لے سکتے ہو۔اللہ کی کتاب ہے۔(صحیح بخاری کتاب الاجارۃ باب 16)اور مذکورہ بالا حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ عظیمت عوض نہ لینے میں ہے۔تاہم امام شعبی سے مروی ہے کہ معلم اس سلسلے میں کوئی شرط نہ کرے۔ویسے کچھ دیا جاوے تو قبول کرلے۔ جناب حسن بصری نے اس سلسلے میں دس درہم ادا کیے۔(حوالہ مذکور)بہر حال مدرس اورداعی حضرات مجاہد کی طرح ہیں۔ اگر اعلائے کلمۃ اللہ کی نیت رکھتے ہوں۔ اور عو ض لیں تو ان شاء اللہ مباح ہے۔کوئی جرم نہیں۔لیکن نیت محض مال کھانا ہو تو حرام ہے۔اور دنیا و آخرت میں اس سے بڑھ کر اور کوئی خسارے کا سودا نہیں۔ قرآن کریم کو لحن عرب میں پڑھنا مستحب اور مطلوب ہے۔ اور اس میں اپنی سی کوشش اور محنت کرتے رہنا چاہیے۔کیونکہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ مگر بدوی اور عجمی لوگوں کےلئے عربی اسلوب اور قواعد تجوید پر کماحقہ پورا اترنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لئے آپ نے مختلف طبقات کے لوگوں کی قراءت کی توثیق فرما کر امت پر آسانی اور احسان فرمایا ہے۔2۔ایسے لوگوں کا پیدا ہوجانا جو قراءت قرآن کو ریا شہرت اور حطام دنیا (دنیوی سازوسامان) جمع کرنے کا زریعہ بنا لیں۔آثار قیامت میں سے ہے۔3۔ظاہر الفاظ کی تجوید میں مبالغہ اور آواززیر وبم ہی کو قرات جاننا اور مفہوم و معنی سے صرف نظر کرلیناازحد معیوب ہے۔4۔تلاوت قرآن اور اس کے درس تدریس میں اللہ کی رضا کو پیش نظر رکھنا واجب ہے۔5۔حدیث نبویﷺ (احق ما اخذتم عليه اجرا كتاب الله) سب سے عمدہ چیز جس پر تم اجر(عوض واجرت)لے سکتے ہو۔اللہ کی کتاب ہے۔(صحیح بخاری کتاب الاجارۃ باب 16)اور مذکورہ بالا حدیث میں تطبیق یہ ہے کہ عظیمت عوض نہ لینے میں ہے۔تاہم امام شعبی سے مروی ہے کہ معلم اس سلسلے میں کوئی شرط نہ کرے۔ویسے کچھ دیا جاوے تو قبول کرلے۔ جناب حسن بصری نے اس سلسلے میں دس درہم ادا کیے۔(حوالہ مذکور)بہر حال مدرس اورداعی حضرات مجاہد کی طرح ہیں۔ اگر اعلائے کلمۃ اللہ کی نیت رکھتے ہوں۔ اور عو ض لیں تو ان شاء اللہ مباح ہے۔کوئی جرم نہیں۔لیکن نیت محض مال کھانا ہو تو حرام ہے۔اور دنیا و آخرت میں اس سے بڑھ کر اور کوئی خسارے کا سودا نہیں۔