کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ مَن تَرَكَ الِقرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ ضعیف حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَقَ عَنْ مَكْحُولٍ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ كُنَّا خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَلَاةِ الْفَجْرِ فَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَثَقُلَتْ عَلَيْهِ الْقِرَاءَةُ فَلَمَّا فَرَغَ قَالَ لَعَلَّكُمْ تَقْرَءُونَ خَلْفَ إِمَامِكُمْ قُلْنَا نَعَمْ هَذًّا يَا رَسُولَ اللَّهِ قَالَ لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا
کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل
باب: جو کوئی اپنی نماز میں سورۃ فاتحہ کی قرآت چھوڑ دے
سیدنا عبادہ بن صامت ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم نماز فجر میں رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھے ۔ آپ ﷺ نے قرآت شروع فرمائی مگر وہ آپ ﷺ پر بھاری ہو گئی ۔ ( یعنی آپ اس میں رواں نہ رہ سکے ) جب آپ ﷺ فارغ ہوئے تو کہا ” شاید کہ تم لوگ اپنے امام کے پیچھے پڑھتے ہو ؟ “ ہم نے کہا : ہاں ، اے اللہ کے رسول ! ہم جلدی جلدی پڑھتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا ” نہ پڑھا کرو مگر فاتحہ ، کیونکہ جو اسے ( فاتحہ کو ) نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ۔ “
تشریح :
شیخ البانی نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے۔ جبکہ امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔اور خطابی کہتے ہیں۔(جید۔لاطعن فیہ) یعنی حدیث اچھی ہے اس میں کوئی عیب نہیں (عن المعبود) علامہ ابن قیم فرماتے ہیں۔کہ اس روایت میں ایک علت ہے۔کہ اس کو ابن اسحاق نے مکحول سے بصیغہ عن روایت کیا ہے۔اور وہ مدلس ہے۔اور مکحول سے اپنے سماع کی صراحت بھی نہیں کی ہے۔ایسی صورت میں حدیث ناقابل حجت ہوجاتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ امام بہیقی۔ نے اس روایت کو ابراہیم بن سعد سے روایت کیا ہے۔اور اس میں مکحول سے سماع کی صراحت موجود ہے۔اس طرح یہ حدیث موصول اور صحیح ہوجاتی ہے۔امام بخاری نے کتاب القراءت میں اسے بیان کیا ہے۔اوراسے صحیح لکھا ہے۔ ابن اسحاق کی توثیق وثنا بیان کی ہے۔اور اس حدیث سےحجت لی ہے۔نیز ابن اسحاق کے علاوہ ایک دوسری سندسے بھی بیان کی ہے اور یہ صحیح ہے۔(تہذیب سنن ابی دائود لا بن القیم وعون المعبود)
شیخ البانی نے اس روایت کو ضعیف لکھا ہے۔ جبکہ امام ترمذی نے اسے حسن کہا ہے۔اور خطابی کہتے ہیں۔(جید۔لاطعن فیہ) یعنی حدیث اچھی ہے اس میں کوئی عیب نہیں (عن المعبود) علامہ ابن قیم فرماتے ہیں۔کہ اس روایت میں ایک علت ہے۔کہ اس کو ابن اسحاق نے مکحول سے بصیغہ عن روایت کیا ہے۔اور وہ مدلس ہے۔اور مکحول سے اپنے سماع کی صراحت بھی نہیں کی ہے۔ایسی صورت میں حدیث ناقابل حجت ہوجاتی ہے۔ فرماتے ہیں کہ امام بہیقی۔ نے اس روایت کو ابراہیم بن سعد سے روایت کیا ہے۔اور اس میں مکحول سے سماع کی صراحت موجود ہے۔اس طرح یہ حدیث موصول اور صحیح ہوجاتی ہے۔امام بخاری نے کتاب القراءت میں اسے بیان کیا ہے۔اوراسے صحیح لکھا ہے۔ ابن اسحاق کی توثیق وثنا بیان کی ہے۔اور اس حدیث سےحجت لی ہے۔نیز ابن اسحاق کے علاوہ ایک دوسری سندسے بھی بیان کی ہے اور یہ صحیح ہے۔(تہذیب سنن ابی دائود لا بن القیم وعون المعبود)