Book - حدیث 822

کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ مَن تَرَكَ الِقرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ صحيح ق دون قوله فصاعدا وعند م فصاعدا حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَابْنُ السَّرْحِ قَالَا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ الزُّهْرِيِّ عَنْ مَحْمُودِ بْنِ الرَّبِيعِ عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَصَاعِدًا قَالَ سُفْيَانُ لِمَنْ يُصَلِّي وَحْدَهُ

ترجمہ Book - حدیث 822

کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل باب: جو کوئی اپنی نماز میں سورۃ فاتحہ کی قرآت چھوڑ دے سیدنا عبادہ بن صامت ؓ نبی کریم ﷺ کی طرف نسبت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص سورۃ فاتحہ اور کچھ مزید نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ۔ “ جناب سفیان نے کہا اس سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی شخص اکیلا پڑھ رہا ہو ( تو یہ حکم ہے
تشریح : یہ حدیث صحیح ہے ‘مگر بعض روایات میں ‘‘فصاعدا‘‘کا لفظ منقول ہے ۔اس لفظ کے لگانے کا فائدہ یہ ہے کہ کم از کم سورہ فاتحہ پڑھنے یا اس سے کچھ زیادہ پڑھے۔سورہ فاتحہ سے کم نہ پڑھے ٭یعنی سورہ فاتحہ کا پڑھنا بہر حال ضروری ہے۔باقی رہا سفیان رحمہ اللہ کا بیان کہ یہ اکیلے کے لیے ہے تو یہ ان کی رائے ہے اور تس مسئلے میں ان لوگوں کے درمیان اختلاف رہا ہے ۔2(لاصلاة)میں لائے نفی جنس ہے ‘نفی کمال کا نہیں۔شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے کیا خوب ہے کہ نبی ﷺکےالفاظ اس کے رکن ہونے پردلالت کرتے ہیں’؛(لاصلوٰة الّا بفاتحةالكتاب )اور (لاتجزي صلوٰة رجل حتيٰ یقيم ظھرہ فی الرّکوع والسّجود)آدمی کی نماز جائز نہیں ہوتی جب تک کہ رکوع اور سجود میں اپنی کمر سیدھی نہ کر لے۔جس عمل کو شارع علیہ السلام نے ’’صلوٰۃ‘‘سے تعبیر فرمایا ہےاس میں تنبیہ بلیغ ہے کہ یہ نماز میں رکن ہے ۔(حجةاللہ البالغہ .ّ4.ّ2)اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہ لا نہی ہے-اس معنی میں کہ(لاصلاۃ الّا بقراءۃفاتحۃ الکتاب)یعنی فاتحہ کے بغیر نماز مت پڑھو‘‘جیسے کہ فرمایا(لا صلوٰۃ بحضرۃ الطعام)(صحیح مسلم‘حدیث نمبر .ّ560)کھانا تیار ہوتو نماز نہیں۔۔3۔خیال رہے کہ کچھ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ حدیث’’لاصلوٰۃ‘‘کے الفاظ سے سورہ فاتحہ کا فرض ہونا لازم آتا ہے اور یہ قرآن اضافہ ہے یعنی قرآن مجید میں ہے کہ جب قرآن مجید کی تلاوت ہو رہی ہو تو خاموشی اختیار کرو۔اور حدیث میں ہے کہ جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھےاس کی نماز نہیں ۔یعنی سورہ فاتحہ کا پڑھنا لازم ہے۔ جب کہ(ان کے نزدیک)سنت سےقرآن پر اضافہ جائز نہیں۔حالانک حقیقت یہ ہے کہ یہ خانہ سازاصول ہے ۔اسے قرآن پر اضافے سے تعبیر کرنا ہی یکسر غلط اور حدیث کو مسترد کرنے کا ایک طریقہ ہے۔اسی من گھڑت اصول کی بابت امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایاہےکہ اس طرح کی بات کرنا ایک فاسد خیال ہے ۔جس کا نتیجہ بہت سی پاکیزہ سنتوں کے ترک کی صورت میں نکلتا یہ حدیث صحیح ہے ‘مگر بعض روایات میں ‘‘فصاعدا‘‘کا لفظ منقول ہے ۔اس لفظ کے لگانے کا فائدہ یہ ہے کہ کم از کم سورہ فاتحہ پڑھنے یا اس سے کچھ زیادہ پڑھے۔سورہ فاتحہ سے کم نہ پڑھے ٭یعنی سورہ فاتحہ کا پڑھنا بہر حال ضروری ہے۔باقی رہا سفیان رحمہ اللہ کا بیان کہ یہ اکیلے کے لیے ہے تو یہ ان کی رائے ہے اور تس مسئلے میں ان لوگوں کے درمیان اختلاف رہا ہے ۔2(لاصلاة)میں لائے نفی جنس ہے ‘نفی کمال کا نہیں۔شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے کیا خوب ہے کہ نبی ﷺکےالفاظ اس کے رکن ہونے پردلالت کرتے ہیں’؛(لاصلوٰة الّا بفاتحةالكتاب )اور (لاتجزي صلوٰة رجل حتيٰ یقيم ظھرہ فی الرّکوع والسّجود)آدمی کی نماز جائز نہیں ہوتی جب تک کہ رکوع اور سجود میں اپنی کمر سیدھی نہ کر لے۔جس عمل کو شارع علیہ السلام نے ’’صلوٰۃ‘‘سے تعبیر فرمایا ہےاس میں تنبیہ بلیغ ہے کہ یہ نماز میں رکن ہے ۔(حجةاللہ البالغہ .ّ4.ّ2)اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ یہ لا نہی ہے-اس معنی میں کہ(لاصلاۃ الّا بقراءۃفاتحۃ الکتاب)یعنی فاتحہ کے بغیر نماز مت پڑھو‘‘جیسے کہ فرمایا(لا صلوٰۃ بحضرۃ الطعام)(صحیح مسلم‘حدیث نمبر .ّ560)کھانا تیار ہوتو نماز نہیں۔۔3۔خیال رہے کہ کچھ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ حدیث’’لاصلوٰۃ‘‘کے الفاظ سے سورہ فاتحہ کا فرض ہونا لازم آتا ہے اور یہ قرآن اضافہ ہے یعنی قرآن مجید میں ہے کہ جب قرآن مجید کی تلاوت ہو رہی ہو تو خاموشی اختیار کرو۔اور حدیث میں ہے کہ جو شخص سورہ فاتحہ نہ پڑھےاس کی نماز نہیں ۔یعنی سورہ فاتحہ کا پڑھنا لازم ہے۔ جب کہ(ان کے نزدیک)سنت سےقرآن پر اضافہ جائز نہیں۔حالانک حقیقت یہ ہے کہ یہ خانہ سازاصول ہے ۔اسے قرآن پر اضافے سے تعبیر کرنا ہی یکسر غلط اور حدیث کو مسترد کرنے کا ایک طریقہ ہے۔اسی من گھڑت اصول کی بابت امام شوکانی رحمہ اللہ نے فرمایاہےکہ اس طرح کی بات کرنا ایک فاسد خیال ہے ۔جس کا نتیجہ بہت سی پاکیزہ سنتوں کے ترک کی صورت میں نکلتا