Book - حدیث 821

کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ مَن تَرَكَ الِقرَاءَةَ فِي صَلَاتِهِ بِفَاتِحَةِ الكِتَابِ صحیح حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ عَنْ مَالِكٍ عَنْ الْعَلَاءِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا السَّائِبِ مَوْلَى هِشَامِ بْنِ زَهْرَةَ يَقُولُ سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ فَهِيَ خِدَاجٌ غَيْرُ تَمَامٍ اس کے بعدحدیث قدسی ہے‘ قَالَ فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ إِنِّي أَكُونُ أَحْيَانًا وَرَاءَ الْإِمَامِ قَالَ فَغَمَزَ ذِرَاعِي وَقَالَ اقْرَأْ بِهَا يَا فَارِسِيُّ فِي نَفْسِكَ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى قَسَمْتُ الصَّلَاةَ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي نِصْفَيْنِ فَنِصْفُهَا لِي وَنِصْفُهَا لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اقْرَءُوا يَقُولُ الْعَبْدُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ حَمِدَنِي عَبْدِي يَقُولُ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَثْنَى عَلَيَّ عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَجَّدَنِي عَبْدِي يَقُولُ الْعَبْدُ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ يَقُولُ اللَّهُ هَذِهِ بَيْنِي وَبَيْنَ عَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ يَقُولُ الْعَبْدُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ يَقُولُ اللَّهُ فَهَؤُلَاءِ لِعَبْدِي وَلِعَبْدِي مَا سَأَلَ

ترجمہ Book - حدیث 821

کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل باب: جو کوئی اپنی نماز میں سورۃ فاتحہ کی قرآت چھوڑ دے سیدنا ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” جو شخص کوئی نماز پڑھے اور اس میں ام القرآن ( سورۃ فاتحہ ) نہ پڑھے تو ایسی نماز ناقص ہے ، ناقص ہے ، ناقص ہے ، کامل نہیں ہے ۔ “ ( ابو سائب نے کہا ) میں نے کہا : اے ابوہریرہ ! میں بعض اوقات امام کے پیچھے ہوتا ہوں ۔ تو انہوں نے میری کلائی دبائی اور کہا : اے فارسی ! اسے اپنے نفس میں پڑھا کرو ، بلاشبہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے ، آپ ﷺ کہتے تھے ” اللہ عزوجل فرماتا ہے : میں نے نماز کو اپنے اور بندے کے درمیان آدھے آدھ تقسیم کر دیا ہے ، نصف میرے لیے ہے اور نصف میرے بندے کے لیے اور میرے بندے کے لیے وہ سب کچھ ہے جو اس نے مانگا ۔ “ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” پڑھا کرو ۔ بندہ کہتا ہے «الحمد لله رب العالمين» اللہ عزوجل فرماتا ہے : میرے بندے نے میری تعریف کی ۔ بندہ کہتا ہے : «الرحمن الرحيم» اللہ عزوجل فرماتا ہے : میرے بندے نے میری ثنا کی ۔ بندہ کہتا ہے : «مالك يوم الدين» اللہ عزوجل فرماتا ہے : میرے بندے نے میری بزرگی بیان کی ۔ بندہ کہتا ہے «إياك نعبد وإياك نستعين» ( اللہ عزوجل فرماتا ہے ) یہ میرے اور بندے کے مابین ہے اور میرے بندے کے لیے وہ سب کچھ ہے جو اس نے مانگا ۔ بندہ کہتا ہے « اهدنا الصراط المستقيم * صراط الذين أنعمت عليهم غير المغضوب عليهم ولا الضالين» ( اللہ عزوجل فرماتا ہے ) سب میرے بندے کے لیے ہے اور میرے بندے کے لیے وہ سب کچھ ہے جو اس نے مانگا ۔ “
تشریح : سورہ فاتحہ کے بغیر نماز بالکل ناقص اور نا تمام رہتی ہے۔جس کی تعبیر دوسری احادیث میں کچھ یوں ہے۔(لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب )(صحیح بخاری ۔حدیث 756۔وصحیح مسلم۔حدیث 394)اسماعیلی کی روایت میں جناب سفیان سے مروی ہے۔(لا تجزي صلوة لايقرا فيها بفاتحة الكتاب )(سنن دار قطنی۔حدیث 1212) جس نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ کافی نہیں ہوتی فتح الباری ۔ابن خذیمہ۔ابن حبان اور احمد میں ہے۔(لا تقبل صلوة لا يقرا فيها بام القران )(فتح الباری۔شرح حدیث 756) جس نماز میں ام القرآن فاتحہ نہ پڑھی جائے۔وہ قبول نہیں ہوتی اس قسم کے مختلف الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے۔اس کا پڑھنا فرض اور واجب ہے۔ الا یہ کہ کوئی پڑھنے سے عاجز ہو۔اس حکم میں تمام قسم کی نمازیں (فرض ۔نفل ۔جنازہ۔عید اور کسوف وغیرہ)اور تمام طرح کے نمازی۔(منفرد۔امام ۔مقتدی۔حاضر اور مسافر)شامل ہیں۔3۔ نفس میں پڑھنا اس سے مراد آواز نکالے بغیر زبان سے پڑھنا ہے۔ صرف ا ن الفاظ کا خیال اور تصور صحیح نہیں اسے کسی طرح قرائت (پڑھنا) نہیں کہا جاتا۔نیز یہ مسئلہ حضرت ابو ہریرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مذہب اور رائے محض نہیں۔بلکہ ان کا استدلال صریح اور صحیح فرمان نبویﷺ سے ہے۔4۔سورہ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کرتے ہوئے صرف اسی کی تقسیم کی گئی ہے۔اوراس تقسیم میں بسم اللہ کوشمار نہیں کیا گیا ہے۔ یہ دلیل ہے کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا جزو نہیں ہے۔5۔امام کے پیچھے ہونے کا اشکال آج کا نیا اشکال نہیں ہے۔ بلکہ تابعین کے دورسے ہے۔مگر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے پڑھنے کا فتویٰ اور اس کی دلیل پیش فرما کر تمام اوہام کا ازالہ فرمادیاہے۔ نیز آیت کریمہ(وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا)(اعراف ۔104) جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو کا مفہوم بھی واضح کردیا کہ آہستہ سے پڑھو یعنی آواز نہ نکا؛و۔اس میں انصات بھی ہے۔اور قراءت پر عمل بھی نیز حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔لا تفعلوا الا بام القران یعنی امام کے پیچھے سورۃ تحہ کی قراءت کرو 6۔سورۃ فاتحہ نماز کی سب ر کعات میں پڑھی جائے۔جیسا کہ حضرت خلاد بل رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (مسئی الصلواۃ)میں آیا کہ(ثم افعل ذلك في صلوتك كلها(صحیح بخاری۔حدیث 793وصحیح مسلم حدیث 397)اور پوری نماز میں ایسا ہی کرو سورہ فاتحہ کے بغیر نماز بالکل ناقص اور نا تمام رہتی ہے۔جس کی تعبیر دوسری احادیث میں کچھ یوں ہے۔(لا صلوة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب )(صحیح بخاری ۔حدیث 756۔وصحیح مسلم۔حدیث 394)اسماعیلی کی روایت میں جناب سفیان سے مروی ہے۔(لا تجزي صلوة لايقرا فيها بفاتحة الكتاب )(سنن دار قطنی۔حدیث 1212) جس نماز میں سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ کافی نہیں ہوتی فتح الباری ۔ابن خذیمہ۔ابن حبان اور احمد میں ہے۔(لا تقبل صلوة لا يقرا فيها بام القران )(فتح الباری۔شرح حدیث 756) جس نماز میں ام القرآن فاتحہ نہ پڑھی جائے۔وہ قبول نہیں ہوتی اس قسم کے مختلف الفاظ ثابت کرتے ہیں کہ سورہ فاتحہ نماز کا رکن ہے۔اس کا پڑھنا فرض اور واجب ہے۔ الا یہ کہ کوئی پڑھنے سے عاجز ہو۔اس حکم میں تمام قسم کی نمازیں (فرض ۔نفل ۔جنازہ۔عید اور کسوف وغیرہ)اور تمام طرح کے نمازی۔(منفرد۔امام ۔مقتدی۔حاضر اور مسافر)شامل ہیں۔3۔ نفس میں پڑھنا اس سے مراد آواز نکالے بغیر زبان سے پڑھنا ہے۔ صرف ا ن الفاظ کا خیال اور تصور صحیح نہیں اسے کسی طرح قرائت (پڑھنا) نہیں کہا جاتا۔نیز یہ مسئلہ حضرت ابو ہریرہرضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مذہب اور رائے محض نہیں۔بلکہ ان کا استدلال صریح اور صحیح فرمان نبویﷺ سے ہے۔4۔سورہ فاتحہ کو نماز سے تعبیر کرتے ہوئے صرف اسی کی تقسیم کی گئی ہے۔اوراس تقسیم میں بسم اللہ کوشمار نہیں کیا گیا ہے۔ یہ دلیل ہے کہ بسم اللہ سورۃ فاتحہ کا جزو نہیں ہے۔5۔امام کے پیچھے ہونے کا اشکال آج کا نیا اشکال نہیں ہے۔ بلکہ تابعین کے دورسے ہے۔مگر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کے پڑھنے کا فتویٰ اور اس کی دلیل پیش فرما کر تمام اوہام کا ازالہ فرمادیاہے۔ نیز آیت کریمہ(وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا)(اعراف ۔104) جب قرآن پڑھا جائے تو خاموشی سے سنو کا مفہوم بھی واضح کردیا کہ آہستہ سے پڑھو یعنی آواز نہ نکا؛و۔اس میں انصات بھی ہے۔اور قراءت پر عمل بھی نیز حضرت عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا۔لا تفعلوا الا بام القران یعنی امام کے پیچھے سورۃ تحہ کی قراءت کرو 6۔سورۃ فاتحہ نماز کی سب ر کعات میں پڑھی جائے۔جیسا کہ حضرت خلاد بل رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث (مسئی الصلواۃ)میں آیا کہ(ثم افعل ذلك في صلوتك كلها(صحیح بخاری۔حدیث 793وصحیح مسلم حدیث 397)اور پوری نماز میں ایسا ہی کرو