Book - حدیث 785

کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ مَن لَّم يَرَ الجَهرَ { بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ } ضعیف حَدَّثَنَا قَطَنُ بْنُ نُسَيْرٍ حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ حَدَّثَنَا حُمَيْدٌ الْأَعْرَجُ الْمَكِّيُّ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عُرْوَةَ عَنْ عَائِشَةَ وَذَكَرَ الْإِفْكَ قَالَتْ جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَشَفَ عَنْ وَجْهِهِ وَقَالَ أَعُوذُ بِالسَّمِيعِ الْعَلِيمِ مِنْ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ إِنَّ الَّذِينَ جَاءُوا بِالْإِفْكِ عُصْبَةٌ مِنْكُمْ الْآيَةَ قَالَ أَبُو دَاوُد وَهَذَا حَدِيثٌ مُنْكَرٌ قَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ جَمَاعَةٌ عَنْ الزُّهْرِيِّ لَمْ يَذْكُرُوا هَذَا الْكَلَامَ عَلَى هَذَا الشَّرْحِ وَأَخَافُ أَنْ يَكُونَ أَمْرُ الِاسْتِعَاذَةِ مِنْ كَلَامِ حُمَيْدٍ

ترجمہ Book - حدیث 785

کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل باب: ان حضرات کے دلائل جو «بسم الله الرحمن الرحيم» کو اونچی آواز سے نہیں پڑھتے جناب عروہ کے واسطہ سے سیدہ عائشہ ؓا سے مروی ہےاور عروہ نے قصہ افک کا ذکر کیا ۔ سیدہ عائشہ ؓا نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ بیٹھے اور اپنے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور کہا « أعوذ بالسميع العليم من الشيطان الرجيم * إن الذين جاءوا بالإفك عصبة منكم‏» ۔ امام ابوداؤد ؓ نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے ۔ اسے زہری سے محدثین کی جماعت نے روایت کیا ہے مگر انہوں نے یہ کلام ( یعنی تعوذ ) اس طریقے سے ( یعنی یہاں پر ) ذکر نہیں کیا اور مجھے اندیشہ ہے کہ شیطان سے «تعوذ» کا بیان حمید کا کلام ہو گا ۔
تشریح : امام صاحب کا اس حدیث کو منکر بتاکر یہ واضح کرنا مقصود ہے۔کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے تعوذ کا طریقہ یہ ثابت ہے۔ کہ اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا نام بھی آئے۔کیونکہ قرآن میں ہے۔( فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ(النحل۔98/16) اللہ کے زریعے سے شیطان مردود سے پناہ مانگو۔اور احادیث میں بھی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم اور اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔(اعوذ بالسمع العلیم) نہیں ہے۔یہ الفاظ صرف حمید راوی بیان کرتا ہے۔دوسرے راویوں نے اس طرح بیان نہیں کیا ہے۔اس لئے یہ حدیث امام ابو دائود کے نزدیک منکر ہے۔ لیکن صاحب عون المعبود فرماتے ہیں۔ کہ اس لہاظ سے یہ روایت منکر نہیں شاذ ہوگی۔ااور شاذ روایت وہ ہوتی ہے۔جس میں مقبول ر اوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے مخالف بیان کرے۔(اوراس میں ایسا ہی ہے۔) اور منکر روایت میں ضعیف راوی ثقہ راوی کی مخالفت کرتا ہے۔ امام صاحب کا اس حدیث کو منکر بتاکر یہ واضح کرنا مقصود ہے۔کہ قرآن کریم اور احادیث صحیحہ سے تعوذ کا طریقہ یہ ثابت ہے۔ کہ اس میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا نام بھی آئے۔کیونکہ قرآن میں ہے۔( فَاسْتَعِذْ بِاللَّـهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ(النحل۔98/16) اللہ کے زریعے سے شیطان مردود سے پناہ مانگو۔اور احادیث میں بھی اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم اور اعوذ باللہ السمیع العلیم من الشیطان الرجیم کے الفاظ وارد ہوئے ہیں۔(اعوذ بالسمع العلیم) نہیں ہے۔یہ الفاظ صرف حمید راوی بیان کرتا ہے۔دوسرے راویوں نے اس طرح بیان نہیں کیا ہے۔اس لئے یہ حدیث امام ابو دائود کے نزدیک منکر ہے۔ لیکن صاحب عون المعبود فرماتے ہیں۔ کہ اس لہاظ سے یہ روایت منکر نہیں شاذ ہوگی۔ااور شاذ روایت وہ ہوتی ہے۔جس میں مقبول ر اوی اپنے سے زیادہ ثقہ راوی کے مخالف بیان کرے۔(اوراس میں ایسا ہی ہے۔) اور منکر روایت میں ضعیف راوی ثقہ راوی کی مخالفت کرتا ہے۔