Book - حدیث 751

کِتَابُ تَفْرِيعِ اسْتِفْتَاحِ الصَّلَاةِ بَابُ مَنْ لَمْ يَذْكُرِ الرَّفْعَ عِنْدَ الرُّكُوعِ صحیح حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ وَخَالِدُ بْنُ عَمْرٍو وَأَبُو حُذَيْفَةَ قَالُوا حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا قَالَ فَرَفَعَ يَدَيْهِ فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ وَقَالَ بَعْضُهُمْ مَرَّةً وَاحِدَةً

ترجمہ Book - حدیث 751

کتاب: نماز شروع کرنے کے احکام ومسائل باب: جس نے رکوع کے وقت رفع الیدین کا ذکر نہیں کیا جناب سفیان نے اسی سند سے اس حدیث کو بیان کیا کہا پس آپ نے پہلی ہی بار اپنے ہاتھ اٹھائے ۔ اور بعض نے کہا : ایک ہی بار اٹھائے ۔
تشریح : حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت امام ترمذی کی تحقیق مین ’’حسن،، اور امام ابن حزم کےنزدیک ’’صحیح ،، ہے۔علامہ ناصرالدین البانی اوران سےپہلے علامہ احمد محمد شاکر � نے بھی اسے ’’ صحیح ،، لکھا ہے۔ جبکہ متقدمین حفاظ حدیث کی تحقیق کے خلاصہ حافظ ابن حجر � نےیوں بیان کیا ہے کہ ابن المبارک نے کہا : یہ حدیث میرے نزدیک ثابت نہیں ہے۔،، ابن ابی حاتم نے اپنے والد سےبیان کیا : (ھذا حدیث خطا) ’’ یہ حدیث خطا اور غلط ہے۔’’ امام احمد حنبل � اور ان کے شیخ یحیی بن آدم نے کہا :’’ضعیف ہے۔،، امام بخاری � نے بھی ان ہی کی تائید ومتابعت کی ہے۔امام ابو داؤد � نےکہا :’’ یہ صحیح نہیں ہے ۔،، دار قطنی نےکہا : یہ ثابت نہیں ہے ۔،، ابن حبان نےکہا :’’ اہل کوفہ کےمذہب کےمطابق رکوع کےرفع الیدین کی نفی میں یہ ان کی سب سےعمدہ (احسن ) حدیث ہے حالانکہ یہ سب سے زیادہ ضعیف ہےکیونکہ اس میں کچھ علتیں ہیں جن کی بنا پر یہ ضعیف قرار پاتی ہے۔،، ( التلخیص الحبیر :1؍ 222 ، نیل الأوطار : 2؍201 ) علامہ شوکانی � لکھتے ہیں:’’ اگر ہم حضرت عبداللہ بن مسعود والی حدیث کوصحیح تسلیم کرلیں اورائمہ حدیث کی تنقید کاکوئی اعتبار نہ بھی کریں تواس حدیث اور دیگر احادیث ،جن میں رکوع کے رفع الیدین کااثبات ہے ، میں کوئی تعارض یا منافات نہیں ہے کیونکہ ان احادیث میں امرزائد کابیان ہےاور (صحیح احادیث سے ثابت ) امور زائد بالاجماع مقبول ہواکرتے ہیں بالخصوص جبکہ اسے صحابہ کی ایک بڑی جماعت نےنقل کیا ہو اور محدثین کی ایک جماعت اس کی راوی ہو۔(نیل الاوطار : 2؍202) ملحوظہ : یہ قاعدہ سجدوں کےرفع الیدین پر منطبق نہیں ہوسکتا ۔اس لیے کہ صحیح اسانید سے ثابت ہےکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ بالوضاحت کہتےہیں:’’ آپ ﷺ سجدوں میں رفع الیدین نہ کرتے تھے ۔،، (صحیح بخاری ، حدیث : 735 و صحیح مسلم ، حدیث : 39) علامہ احمدشاکر � فرماتے ہیں کہ اس حدیث (یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث ) سےدیگر مواقع کےرفع الیدین کا ترک ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس حدیث میں ’’ نفی ،، کابیان ہے او ردیگر صحیح احادیث میں ’’اثبات ،،ہے اوراثبات ہمیشہ مقدم ہوا کرتا ہے ۔چونکہ یہ عمل سنت ہے،ممکن ہےکہ نبی ﷺ نےکبھی ایک یازیادہ باراسے ترک بھی کیا ہو۔مگر اغلب اوراکثر اس پر عمل کرنا ہی ثابت ہے لہذا رکوع کےلیے جاتے وقت اوراس سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا ہی سنت ہے( حواشی جامع ترمذی : 2؍41 بتحقیق احمد شاکر ) راقم عرض کرتا ہے کہ صحیح احادیث میں تعارض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔جہاں کہیں محسوس ہوتا ہے وہ یا تو نقل کی خرابی ہوتی ہےیا عقل وفہم کی۔حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت اسنادی بحث سے قطع نظر معنوی اعتبار سے بھی قابل بحث ہے۔اول تواس میں سوائے ایک با ر رفع الیدین کےاثباتا یانفیا اورکوئی بات مذکورہ نہیں ہےحالانکہ نماز کےبیسیوں مسائل ہیں۔جیسےان کےنہ ذکر سے ان کی نفی ہوتی ۔ایسے ہی رکوع کا رفع الیدین ہے۔ دوسرے اس کو متنازع رفع الیدین کےساتھ خاص کرنے کی بجائے اس طرح بھی کہا جاسکتا ہےکہ نبی ﷺ نے دوسری رکعت میں اٹھتے ہوئے پھر دو بارہ رفع الیدین نہ کیا ، بلکہ پہلی رکعت ہی میں ایک بار ہاتھ اٹھائے تھے۔یا جیسے کہ سید اسمعیل شہید � نےبحوالہ فتوحات لکھا ہےکہ اس حدیث کامفہوم یہ ہے کہ نماز شروع کرتے وقت آپ ﷺ باربار ہاتھ نہ اٹھاتے تھے جیسے عیدین میں ہوتا ہے بلکہ صرف ایک ہی بار اٹھانا مسنون ہے۔(جیسے کہ بعض وسوسہ زدہ لوگوں کودیکھا گیا ہےکہ ان کی نیت ہی سیدھی نہیں ہو پاتی ہے اور وہ باربار ہاتھ اٹھاتے اورباندھے ہیں۔) محدثین کرام پر اللہ بےشمار رحمتیں ہوں ، انہوں نے دین کی امانت پوری دیانت کے ساتھ .......... اپنی اسانید سے ......... بلاکم وکاست امت کےحوالے کردی ہے۔اور اس میں اصحاب بصیرت کودعوت ہےکہ مسلمہ اصولوں کےتحت آپ لوگ بھی تنقیح کرسکتے ہیں۔ہمارا عقیدہ ہےکہ عصمت صرف اللہ اوراس کےرسولﷺ کےلیے ہے۔ آپ کےبعد تلامذہ رسول ،تابعین عظام اورائمہ امت سب کےسب قابل اعزاز واکرام ہیں مگر حجت اورا للہ کے ہاں قربت کتاب اللہ او رصحیح ثابت شدہ فرامین رسول میں ہے۔( رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ) ( الحشر : 10) (رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ) (آل عمران : 8) حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت امام ترمذی کی تحقیق مین ’’حسن،، اور امام ابن حزم کےنزدیک ’’صحیح ،، ہے۔علامہ ناصرالدین البانی اوران سےپہلے علامہ احمد محمد شاکر � نے بھی اسے ’’ صحیح ،، لکھا ہے۔ جبکہ متقدمین حفاظ حدیث کی تحقیق کے خلاصہ حافظ ابن حجر � نےیوں بیان کیا ہے کہ ابن المبارک نے کہا : یہ حدیث میرے نزدیک ثابت نہیں ہے۔،، ابن ابی حاتم نے اپنے والد سےبیان کیا : (ھذا حدیث خطا) ’’ یہ حدیث خطا اور غلط ہے۔’’ امام احمد حنبل � اور ان کے شیخ یحیی بن آدم نے کہا :’’ضعیف ہے۔،، امام بخاری � نے بھی ان ہی کی تائید ومتابعت کی ہے۔امام ابو داؤد � نےکہا :’’ یہ صحیح نہیں ہے ۔،، دار قطنی نےکہا : یہ ثابت نہیں ہے ۔،، ابن حبان نےکہا :’’ اہل کوفہ کےمذہب کےمطابق رکوع کےرفع الیدین کی نفی میں یہ ان کی سب سےعمدہ (احسن ) حدیث ہے حالانکہ یہ سب سے زیادہ ضعیف ہےکیونکہ اس میں کچھ علتیں ہیں جن کی بنا پر یہ ضعیف قرار پاتی ہے۔،، ( التلخیص الحبیر :1؍ 222 ، نیل الأوطار : 2؍201 ) علامہ شوکانی � لکھتے ہیں:’’ اگر ہم حضرت عبداللہ بن مسعود والی حدیث کوصحیح تسلیم کرلیں اورائمہ حدیث کی تنقید کاکوئی اعتبار نہ بھی کریں تواس حدیث اور دیگر احادیث ،جن میں رکوع کے رفع الیدین کااثبات ہے ، میں کوئی تعارض یا منافات نہیں ہے کیونکہ ان احادیث میں امرزائد کابیان ہےاور (صحیح احادیث سے ثابت ) امور زائد بالاجماع مقبول ہواکرتے ہیں بالخصوص جبکہ اسے صحابہ کی ایک بڑی جماعت نےنقل کیا ہو اور محدثین کی ایک جماعت اس کی راوی ہو۔(نیل الاوطار : 2؍202) ملحوظہ : یہ قاعدہ سجدوں کےرفع الیدین پر منطبق نہیں ہوسکتا ۔اس لیے کہ صحیح اسانید سے ثابت ہےکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ بالوضاحت کہتےہیں:’’ آپ ﷺ سجدوں میں رفع الیدین نہ کرتے تھے ۔،، (صحیح بخاری ، حدیث : 735 و صحیح مسلم ، حدیث : 39) علامہ احمدشاکر � فرماتے ہیں کہ اس حدیث (یعنی حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث ) سےدیگر مواقع کےرفع الیدین کا ترک ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس حدیث میں ’’ نفی ،، کابیان ہے او ردیگر صحیح احادیث میں ’’اثبات ،،ہے اوراثبات ہمیشہ مقدم ہوا کرتا ہے ۔چونکہ یہ عمل سنت ہے،ممکن ہےکہ نبی ﷺ نےکبھی ایک یازیادہ باراسے ترک بھی کیا ہو۔مگر اغلب اوراکثر اس پر عمل کرنا ہی ثابت ہے لہذا رکوع کےلیے جاتے وقت اوراس سے اٹھتے وقت رفع الیدین کرنا ہی سنت ہے( حواشی جامع ترمذی : 2؍41 بتحقیق احمد شاکر ) راقم عرض کرتا ہے کہ صحیح احادیث میں تعارض کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔جہاں کہیں محسوس ہوتا ہے وہ یا تو نقل کی خرابی ہوتی ہےیا عقل وفہم کی۔حضرت عبداللہ بن مسعود کی یہ روایت اسنادی بحث سے قطع نظر معنوی اعتبار سے بھی قابل بحث ہے۔اول تواس میں سوائے ایک با ر رفع الیدین کےاثباتا یانفیا اورکوئی بات مذکورہ نہیں ہےحالانکہ نماز کےبیسیوں مسائل ہیں۔جیسےان کےنہ ذکر سے ان کی نفی ہوتی ۔ایسے ہی رکوع کا رفع الیدین ہے۔ دوسرے اس کو متنازع رفع الیدین کےساتھ خاص کرنے کی بجائے اس طرح بھی کہا جاسکتا ہےکہ نبی ﷺ نے دوسری رکعت میں اٹھتے ہوئے پھر دو بارہ رفع الیدین نہ کیا ، بلکہ پہلی رکعت ہی میں ایک بار ہاتھ اٹھائے تھے۔یا جیسے کہ سید اسمعیل شہید � نےبحوالہ فتوحات لکھا ہےکہ اس حدیث کامفہوم یہ ہے کہ نماز شروع کرتے وقت آپ ﷺ باربار ہاتھ نہ اٹھاتے تھے جیسے عیدین میں ہوتا ہے بلکہ صرف ایک ہی بار اٹھانا مسنون ہے۔(جیسے کہ بعض وسوسہ زدہ لوگوں کودیکھا گیا ہےکہ ان کی نیت ہی سیدھی نہیں ہو پاتی ہے اور وہ باربار ہاتھ اٹھاتے اورباندھے ہیں۔) محدثین کرام پر اللہ بےشمار رحمتیں ہوں ، انہوں نے دین کی امانت پوری دیانت کے ساتھ .......... اپنی اسانید سے ......... بلاکم وکاست امت کےحوالے کردی ہے۔اور اس میں اصحاب بصیرت کودعوت ہےکہ مسلمہ اصولوں کےتحت آپ لوگ بھی تنقیح کرسکتے ہیں۔ہمارا عقیدہ ہےکہ عصمت صرف اللہ اوراس کےرسولﷺ کےلیے ہے۔ آپ کےبعد تلامذہ رسول ،تابعین عظام اورائمہ امت سب کےسب قابل اعزاز واکرام ہیں مگر حجت اورا للہ کے ہاں قربت کتاب اللہ او رصحیح ثابت شدہ فرامین رسول میں ہے۔( رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ) ( الحشر : 10) (رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ) (آل عمران : 8)