Book - حدیث 594

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ إِمَامَةِ الْبَرِّ وَالْفَاجِرِ ضعیف حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، حَدَّثَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ عَنِ الْعَلَاءِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مَكْحُولٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >الصَّلَاةُ الْمَكْتُوبَةُ وَاجِبَةٌ خَلْفَ كُلِّ مُسْلِمٍ، بَرًّا كَانَ، أَوْ فَاجِرًا، وَإِنْ عَمِلَ الْكَبَائِرَ<.

ترجمہ Book - حدیث 594

کتاب: نماز کے احکام ومسائل باب: صالح اور فاجر کی امامت سیدنا ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے ، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” فرض نماز ہر مسلمان کے پیچھے واجب ہے خواہ نیک ہو یا بد ، اگرچہ وہ کبائر کا مرتکب ہو ۔ “
تشریح : یہ روایت سندا ضعیف ہے۔البتہ اگرکبھی اتفا قاً ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنی پڑ جائے تو نماز ہوجائے گی بشرط یہ ہے کہ موحد مسلمان ہو۔قاعدہ یہ ہے کہ جس کی اپنی نماز صحیح ہے اس کی امامت بھی صحیح ہے۔تاریخ بخاری میں ہے عبد الکریم کہتے ہیں۔ کہ میں نے دس اصحاب محمد رضوان اللہ عنہم اجمعین کو پایا جو ظالم حکام کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے۔ کتاب الصلاوۃ کے ہی گزشتہ باب 10۔اذا اخر الامام الصلاة عن الوضت میں بیان ہوا کہ رسول اللہ نے فرمایا! تیرا کیا حال ہوگا جب تم پر ایسے حکام ہوں گے۔ جو نماز کو بے وقت کر کے پڑھیں گے۔یا فرمایا نمازوں کو ان کے اوقاتوں سے ماردیں گے۔ کہا تو آپﷺ کیا فرماتے ہیں۔؟آپ ﷺ نے فرمایا! نماز اپنے وقت پر پڑھنا اگر ان کے ساتھ پائو تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لینا یہ تمہارے لئے نفل ہوگی۔اس حدیث میں آپ نے ان ظالموں کے پیچھے نماز کی اجازت دی ہے۔اور بتایا کہ یہ نفل ہوگی۔(صحیح مسلم۔حدیث 648۔سنن ابی دائود۔حدیث 431)رہا کسی انسان کا بد عقیدہ ہونا ۔اگر کوئی امام ایسا ہو جو اعلانیہ شرک اکبر کا مرتکب ہوتا ہو۔یعنی غیر اللہ کی ندا اور غیر اللہ سے استغاثہ وغیرہ کو مباح جانتا ہو۔ تو اس کے پیچھے نماز کے کوئی معنی نہیں ہیں۔اگر کہیں کوئی اضطراری صورت پیش آجائے۔تو اعادہ ضروری ہوگا۔لیکن اگر کوئی پوشیدہ طور پر ایسے عقائد رکھتا ہو۔ تو ہم اس کی کرید کے مکلف نہیں ہیں۔ ان کے پیچھےنماز درست ہے۔فقہی اختلافات وترجیحات قابل برداشت ہیں۔اگر کوئی عدم اعتدال کا مرتکب ہو اور جلدی جلدی نماز پڑھاتا ہو۔کہ ارکان کی ادائیگی مشکل ہوتی ہو تو اس سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔اس کی مثال ظالم حکام کی سی ہے۔اور اس کا حل زکر ہوچکا ہے۔ یہ روایت سندا ضعیف ہے۔البتہ اگرکبھی اتفا قاً ان لوگوں کے پیچھے نماز پڑھنی پڑ جائے تو نماز ہوجائے گی بشرط یہ ہے کہ موحد مسلمان ہو۔قاعدہ یہ ہے کہ جس کی اپنی نماز صحیح ہے اس کی امامت بھی صحیح ہے۔تاریخ بخاری میں ہے عبد الکریم کہتے ہیں۔ کہ میں نے دس اصحاب محمد رضوان اللہ عنہم اجمعین کو پایا جو ظالم حکام کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے۔ کتاب الصلاوۃ کے ہی گزشتہ باب 10۔اذا اخر الامام الصلاة عن الوضت میں بیان ہوا کہ رسول اللہ نے فرمایا! تیرا کیا حال ہوگا جب تم پر ایسے حکام ہوں گے۔ جو نماز کو بے وقت کر کے پڑھیں گے۔یا فرمایا نمازوں کو ان کے اوقاتوں سے ماردیں گے۔ کہا تو آپﷺ کیا فرماتے ہیں۔؟آپ ﷺ نے فرمایا! نماز اپنے وقت پر پڑھنا اگر ان کے ساتھ پائو تو ان کے ساتھ بھی پڑھ لینا یہ تمہارے لئے نفل ہوگی۔اس حدیث میں آپ نے ان ظالموں کے پیچھے نماز کی اجازت دی ہے۔اور بتایا کہ یہ نفل ہوگی۔(صحیح مسلم۔حدیث 648۔سنن ابی دائود۔حدیث 431)رہا کسی انسان کا بد عقیدہ ہونا ۔اگر کوئی امام ایسا ہو جو اعلانیہ شرک اکبر کا مرتکب ہوتا ہو۔یعنی غیر اللہ کی ندا اور غیر اللہ سے استغاثہ وغیرہ کو مباح جانتا ہو۔ تو اس کے پیچھے نماز کے کوئی معنی نہیں ہیں۔اگر کہیں کوئی اضطراری صورت پیش آجائے۔تو اعادہ ضروری ہوگا۔لیکن اگر کوئی پوشیدہ طور پر ایسے عقائد رکھتا ہو۔ تو ہم اس کی کرید کے مکلف نہیں ہیں۔ ان کے پیچھےنماز درست ہے۔فقہی اختلافات وترجیحات قابل برداشت ہیں۔اگر کوئی عدم اعتدال کا مرتکب ہو اور جلدی جلدی نماز پڑھاتا ہو۔کہ ارکان کی ادائیگی مشکل ہوتی ہو تو اس سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔اس کی مثال ظالم حکام کی سی ہے۔اور اس کا حل زکر ہوچکا ہے۔