Book - حدیث 593

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ الرَّجُلِ يَؤُمُّ الْقَوْمَ وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ ضعيف إلا الشطر الأول فصحيح حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ غَانِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ عَبْدٍ الْمَعَافِرِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُولُ: >ثَلَاثَةٌ لَا يَقْبَلُ اللَّهُ مِنْهُمْ صَلَاةً: مَنْ تَقَدَّمَ قَوْمًا وَهُمْ لَهُ كَارِهُونَ، وَرَجُلٌ أَتَى الصَّلَاةَ دِبَارًا- وَالدِّبَارُ: أَنْ يَأْتِيَهَا بَعْدَ أَنْ تَفُوتَهُ-، وَرَجُلٌ اعْتَبَدَ مُحَرَّرَهُ<.

ترجمہ Book - حدیث 593

کتاب: نماز کے احکام ومسائل باب: اس آدمی کا امامت کرانا جسے لوگ ناپسند کرتے ہو سیدنا عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے ” تین شخصوں کی نماز اللہ کے ہاں مقبول نہیں ہوتی ( ایک ) وہ شخص جو کسی قوم کے آگے ہو اور وہ اسے ناپسند کرتے ہوں ، ( دوسرا ) وہ شخص جو نماز کے لیے جماعت نکل جانے کے بعد دیر سے آتا ہو ۔ اور ( تیسرا ) وہ شخص جس نے کسی آزاد شخص کو اپنا غلام بنا لیا ہو ۔ “
تشریح : 1۔شیخ البانی کے نزدیک اس کا پہلا حصہ صحیح ہے۔یعنی جس امام پر اس کی قوم راضی نہ ہو۔اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔اور امام کی ناپسندیدگی کی وجہ اگر واقعی شرعی ہو تو یہ وعید ہوگی۔مثلا اس منصب پر جبراً مسلط ہونا۔نماز بے وقت اور خلاف سنت پڑھانا یا قراءت میں لحن فحش کرنا وغیرہ۔لیکن اگر ناراضی کے اسباب ذاتی قسم کے ہوں۔یا فی الواقع شرعی نہ ہوں۔تو اس وعید سے بری ہوگا۔ نیز متدین (دیندار ) افراداور ان کی کثیر تعداد کا لہاظ بھی ضروری ہے۔چند ایک ناراضگی معتبر نہیں ہے۔چونکہ امام کو مختلف قسم کے لوگوں سے واسطہ رہتا ہے۔جن کی طبائع ازواق میں بہت فرق ہوتا ہے۔اس لئے اسے علم ۔حلم۔اور حکمت سے کام لیتے رہنا چاہیے۔جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کی صفت کا بیان قرآن کریم میں آیا ہ۔( وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ)(آل عمران ۔159) اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ سے بکھرجاتے ۔2۔دوسرے دو امور اگرچہ سندا کمزور ہیں۔مگر انتہائی اہم ہیں۔ یعنی جو شخص عادتاً جماعت سے پیچھے رہتا ہو۔یا بردہ فروشی کاکام کرتا ہو۔یہ کبیرہ گناہ ہیں۔ 1۔شیخ البانی کے نزدیک اس کا پہلا حصہ صحیح ہے۔یعنی جس امام پر اس کی قوم راضی نہ ہو۔اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔اور امام کی ناپسندیدگی کی وجہ اگر واقعی شرعی ہو تو یہ وعید ہوگی۔مثلا اس منصب پر جبراً مسلط ہونا۔نماز بے وقت اور خلاف سنت پڑھانا یا قراءت میں لحن فحش کرنا وغیرہ۔لیکن اگر ناراضی کے اسباب ذاتی قسم کے ہوں۔یا فی الواقع شرعی نہ ہوں۔تو اس وعید سے بری ہوگا۔ نیز متدین (دیندار ) افراداور ان کی کثیر تعداد کا لہاظ بھی ضروری ہے۔چند ایک ناراضگی معتبر نہیں ہے۔چونکہ امام کو مختلف قسم کے لوگوں سے واسطہ رہتا ہے۔جن کی طبائع ازواق میں بہت فرق ہوتا ہے۔اس لئے اسے علم ۔حلم۔اور حکمت سے کام لیتے رہنا چاہیے۔جیسے کہ رسول اللہ ﷺ کی صفت کا بیان قرآن کریم میں آیا ہ۔( وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ)(آل عمران ۔159) اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ آپ سے بکھرجاتے ۔2۔دوسرے دو امور اگرچہ سندا کمزور ہیں۔مگر انتہائی اہم ہیں۔ یعنی جو شخص عادتاً جماعت سے پیچھے رہتا ہو۔یا بردہ فروشی کاکام کرتا ہو۔یہ کبیرہ گناہ ہیں۔