Book - حدیث 592

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ إِمَامَةِ النِّسَاءِ حسن حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ حَمَّادٍ الْحَضْرَمِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ جُمَيْعٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ خَلَّادٍ، عَنْ أُمِّ وَرَقَةَ, بِنْتِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بِهَذَا الْحَدِيثِ... وَالْأَوَّلُ أَتَمُّ قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَزُورُهَا فِي بَيْتِهَا، وَجَعَلَ لَهَا مُؤَذِّنًا يُؤَذِّنُ لَهَا، وَأَمَرَهَا أَنْ تَؤُمَّ أَهْلَ دَارِهَا. قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ: فَأَنَا رَأَيْتُ مُؤَذِّنَهَا شَيْخًا كَبِيرًا.

ترجمہ Book - حدیث 592

کتاب: نماز کے احکام ومسائل باب: عورتوں کی امامت کا مسئلہ جناب عبدالرحمٰن بن خلاد سے روایت ہے انہوں نے سیدہ ام ورقہ بنت عبداللہ بن حارث سے یہی حدیث بیان کی ہے اور پہلی روایت زیادہ کامل ہے ۔ اس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ اس کے ہاں اس کے گھر میں ملنے کے لیے آیا کرتے تھے اور اس کے لیے ایک مؤذن مقرر کیا تھا جو اس کے لیے اذان دیتا تھا اور آپ نے اسے ( ام ورقہ کو ) حکم دیا تھا کہ اپنے گھر والوں کی امامت کرایا کرے ۔ عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے اس کے مؤذن کو دیکھا تھا جو بہت بوڑھا تھا ۔
تشریح : 1۔یہ حدیث دلیل ہے کہاگر عورت اہلیت رکھتی ہو تو وہ عورتوں کی امامت کراسکتی ہے۔حضرت ام ورقہ کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا۔نے بھی فرض اور تراویح میں عورتوں کی امامت کرائی ہے۔(التلخیص الجبیر)بعض لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت مردوں کی اامت کراسکتی ہے۔کیونکہ وہ بوڑھا موذن بھی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوگا۔ لیکن یہ محض ایک احتمال ہی ہے۔ حدیث میں موذن کے نماز پڑھنے کا قطعا ً زکر نہیں ہے۔اس لئے غالب احتمال یہی ہے کہ وہ موذن ازان دے۔کر نماز مسجد نبوی ہی میں پڑھتا ہوگا۔اسلام کے مزاج اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا عمومی طرز عمل اسی بات کا موئد ہے نہ کہ احتمال کا دوسرا استدلال لفظ وار سے کرتے ہیں۔کہ اس میں بیت سے زیادہ وسعت ہے۔اور یہ محلے کے مفہوم میں ہے۔یعنی نبی کریم ﷺ نے ان کو محلہ کی امامت کا حکمدیا تھا۔جن میں عورتوں کے ساتھ مرد بھی ہوتے ہوں گے۔لیکن یہ استدلال بھی احتمالا ت پر مبنی ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ وار کا لفظ حویلی کےلئے خاندان اور قبیلے کےلئے اورگھر کے لئے سب ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن یہاں یہ گھر کے ہی معنی میں استعمال ہوا ہے۔کیونکہ سنن دار قطنی کے الفاظ ہیں۔(وتوم نساء ها) وہ اپنے گھر کی عورتوں کی امامت کرے۔ (سنن دارقطنی ۔باب فی زکر الجماعۃ۔۔۔حدیث 1069) کے ان الفاظ سے(ان اتوم اهل دارها) کا مفہوم متعین ہوجاتا ہےکے اس سے مردانہ محلے اور حویلی کے لوگ ہیں۔اور نہ اس میں مردوں کی شمولیت کا کوئی احتمال ہے۔بلکہ اس سے مرادصرف اپنے گھر کی عورتیں ہیں۔اورعورت کا عورتوں کی امامت کرانا بالکل جائز ہے۔اور ام ورقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔2۔جہاد اوردیگر اہم ضرورت کے مواقع پر عورتوں مردوں کا علاج معالجہ کرسکتی ہیں۔مگر اسلامی سترو حجاب کی پابندی ضروری ہے۔3۔حکومت اسلامیہ اپنی رعیت کے جان ومال اور عزت کی محافظ ہوا کرتی ہے۔چنانچہ مجرمین کوپکڑنا اور قانون کے مطابق فوری سزا دینا ضروری ہے۔اس سے معاشرے میں امن اور اللہ رحمت اترتی ہے۔ 1۔یہ حدیث دلیل ہے کہاگر عورت اہلیت رکھتی ہو تو وہ عورتوں کی امامت کراسکتی ہے۔حضرت ام ورقہ کے علاوہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا۔نے بھی فرض اور تراویح میں عورتوں کی امامت کرائی ہے۔(التلخیص الجبیر)بعض لوگ اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ عورت مردوں کی اامت کراسکتی ہے۔کیونکہ وہ بوڑھا موذن بھی ان کے پیچھے نماز پڑھتا ہوگا۔ لیکن یہ محض ایک احتمال ہی ہے۔ حدیث میں موذن کے نماز پڑھنے کا قطعا ً زکر نہیں ہے۔اس لئے غالب احتمال یہی ہے کہ وہ موذن ازان دے۔کر نماز مسجد نبوی ہی میں پڑھتا ہوگا۔اسلام کے مزاج اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا عمومی طرز عمل اسی بات کا موئد ہے نہ کہ احتمال کا دوسرا استدلال لفظ وار سے کرتے ہیں۔کہ اس میں بیت سے زیادہ وسعت ہے۔اور یہ محلے کے مفہوم میں ہے۔یعنی نبی کریم ﷺ نے ان کو محلہ کی امامت کا حکمدیا تھا۔جن میں عورتوں کے ساتھ مرد بھی ہوتے ہوں گے۔لیکن یہ استدلال بھی احتمالا ت پر مبنی ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ وار کا لفظ حویلی کےلئے خاندان اور قبیلے کےلئے اورگھر کے لئے سب ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن یہاں یہ گھر کے ہی معنی میں استعمال ہوا ہے۔کیونکہ سنن دار قطنی کے الفاظ ہیں۔(وتوم نساء ها) وہ اپنے گھر کی عورتوں کی امامت کرے۔ (سنن دارقطنی ۔باب فی زکر الجماعۃ۔۔۔حدیث 1069) کے ان الفاظ سے(ان اتوم اهل دارها) کا مفہوم متعین ہوجاتا ہےکے اس سے مردانہ محلے اور حویلی کے لوگ ہیں۔اور نہ اس میں مردوں کی شمولیت کا کوئی احتمال ہے۔بلکہ اس سے مرادصرف اپنے گھر کی عورتیں ہیں۔اورعورت کا عورتوں کی امامت کرانا بالکل جائز ہے۔اور ام ورقہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے۔اس سے زیادہ کچھ نہیں۔2۔جہاد اوردیگر اہم ضرورت کے مواقع پر عورتوں مردوں کا علاج معالجہ کرسکتی ہیں۔مگر اسلامی سترو حجاب کی پابندی ضروری ہے۔3۔حکومت اسلامیہ اپنی رعیت کے جان ومال اور عزت کی محافظ ہوا کرتی ہے۔چنانچہ مجرمین کوپکڑنا اور قانون کے مطابق فوری سزا دینا ضروری ہے۔اس سے معاشرے میں امن اور اللہ رحمت اترتی ہے۔