Book - حدیث 585

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ مَنْ أَحَقُّ بِالْإِمَامَةِ صحیح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا أَيُّوبُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: كُنَّا بِحَاضِرٍ يَمُرُّ بِنَا النَّاسُ إِذَا أَتَوُا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَكَانُوا إِذَا رَجَعُوا مَرُّوا بِنَا، فَأَخْبَرُونَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ كَذَا وَكَذَا، وَكُنْتُ غُلَامًا حَافِظًا، فَحَفِظْتُ مِنْ ذَلِكَ قُرْآنًا كَثِيرًا، فَانْطَلَقَ أَبِي وَافِدًا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفَرٍ مِنْ قَوْمِهِ، فَعَلَّمَهُمُ الصَّلَاةَ، فَقَالَ: >يَؤُمُّكُمْ أَقْرَؤُكُمْ<. وَكُنْتُ أَقْرَأَهُمْ -لِمَا كُنْتُ أَحْفَظُ- فَقَدَّمُونِي، فَكُنْتُ أَؤُمُّهُمْ وَعَلَيَّ بُرْدَةٌ لِي صَغِيرَةٌ صَفْرَاءُ، فَكُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ تَكَشَّفَتْ عَنِّي، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ النِّسَاءِ: وَارُوا عَنَّا عَوْرَةَ قَارِئِكُمْ! فَاشْتَرَوْا لِي قَمِيصًا عُمَانِيًّا، فَمَا فَرِحْتُ بِشَيْءٍ بَعْدَ الْإِسْلَامِ فَرَحِي بِهِ، فَكُنْتُ أَؤُمُّهُمْ وَأَنَا ابْنُ سَبْعِ سِنِينَ أَوْ ثَمَانِ سِنِينَ.

ترجمہ Book - حدیث 585

کتاب: نماز کے احکام ومسائل باب: امامت کا زیادہ حقدار کون ہے؟ سیدنا عمرو بن سلمہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک ایسی جگہ پڑاؤ کیے ہوئے تھے کہ لوگ جب نبی کریم ﷺ کے پاس آتے تو ہمارے ہاں سے گزر کر آتے اور واپسی پر بھی ہمارے پاس سے ہو کر جاتے اور ہمیں بتایا کرتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسے ایسے کہا ہے ۔ اور میں ایک ذہین لڑکا تھا ۔ اس طرح میں نے کافی سارا قرآن حفظ کر لیا ۔ آخر کار میرے والد اپنی قوم کا ایک وفد لے کر رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آپ ﷺ نے انہیں نماز کی تعلیم دی اور فرمایا ” تمہارا وہ آدمی امامت کرائے جو قرآن سب سے زیادہ پڑھا ہو ۔ “ چنانچہ میں ہی قوم میں زیادہ پڑھا ہوا تھا کیونکہ میں ( بہت دنوں سے ) قرآن یاد کرتا رہا تھا ۔ تو انہوں نے مجھے امامت کے لیے آگے کر دیا اور میں ان کی امامت کرانے لگا ۔ اور مجھ پر زرد رنگ کی ایک چھوٹی سی چادر ہوا کرتی تھی ۔ جب میں سجدے میں جاتا تو کچھ بے پردہ سا ہو جاتا ۔ ہماری عورتوں میں سے ایک نے کہا : ہم سے اپنے قاری کا ستر تو ڈھانپ دو ۔ چنانچہ ان لوگوں نے مجھے ایک عمانی قمیض خرید کر دی ۔ اس سے مجھے ایسے خوشی ہوئی کہ اسلام لانے کے بعد کسی اور شے سے نہیں ہوئی تھی ۔ چنانچہ میں ان کی امامت کرایا کرتا تھا اور میری عمر اس وقت سات آٹھ سال تھی ۔
تشریح : 1۔حسب ضرورت چھوٹی عمر کا نو عمر بچہ جب قرآن کا قاری اور نماز کے مسائل کوسمجھتا ہو تو اسے امام بنایاجاسکتا ہے۔2۔امام اگر نفل پڑھ رہا ہو تو اس کے پیچھے فرض کی نیت کی جاسکتی ہے۔کیونکہ بچے کی نماز اس کے حق میں نفل ہوتی ہے۔ 1۔حسب ضرورت چھوٹی عمر کا نو عمر بچہ جب قرآن کا قاری اور نماز کے مسائل کوسمجھتا ہو تو اسے امام بنایاجاسکتا ہے۔2۔امام اگر نفل پڑھ رہا ہو تو اس کے پیچھے فرض کی نیت کی جاسکتی ہے۔کیونکہ بچے کی نماز اس کے حق میں نفل ہوتی ہے۔