Book - حدیث 568

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ مَا جَاءَ فِي خُرُوجِ النِّسَاءِ إِلَى الْمَسْجِدِ صحیح حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ وَأَبُو مُعَاوِيَةَ عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ مُجَاهِدٍ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، قَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >ائْذَنُوا لِلنِّسَاءِ إِلَى الْمَسَاجِدِ بِاللَّيْلِ<. فَقَالَ ابْنٌ لَهُ: وَاللَّهِ لَا نَأْذَنُ لَهُنَّ فَيَتَّخِذْنَهُ دَغَلًا! وَاللَّهِ لَا نَأْذَنُ لَهُنَّ! قَالَ: فَسَبَّهُ وَغَضِبَ، وَقَالَ: أَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >ائْذَنُوا لَهُنَّ<، وَتَقُولُ: لَا نَأْذَنُ لَهُنَّ؟!

ترجمہ Book - حدیث 568

کتاب: نماز کے احکام ومسائل باب: عورتوں کا مساجد میں جانا جناب مجاہد نے کہا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” عورتوں کو رات کے وقت مساجد میں جانے کی خاطر اجازت دے دیا کرو ۔ “ اس پر ان کے ایک صاحبزادے نے ان سے کہا : قسم اللہ کی ! ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے ۔ وہ اسے ( باہر نکلنے کا ) ایک بہانہ بنا لیں گی ۔ قسم اللہ کی ! ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے ۔ تو سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے اسے بہت سخت سست کہا اور ناراض ہو گئے ۔ کہا کہ میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے ” ان کو اجازت دو ۔ “ اور تم کہتے ہو کہ ہم انہیں اجازت نہیں دیں گے ۔
تشریح : 1۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اہم مسئلہ واضح فرمایا ہے۔کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں۔کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں اپنی سوچ اور فہم واستدلال کو اہمیت دے۔ اس پر اصرار میں کفر کا اندیشہ ہے۔قرآن مجید میں ہے۔(وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ)(الاحزاب ۔36) کسی بھی مومن مرد عورت کو حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کررسول ﷺ کسی معاملے کافیصلہ فرمادیں تو انھیں اپنے معاملے کا اختیار رہے۔ افسوس ہے ایسے مسلمان کہلوانے والوں پر جو اپنے زوق ومزاج عادات ورسم رواج اور اپنے امام کے قول پر ایسے سخت ہوتے ہیں۔کہ آیات قرآنیہ کی تاویل اور احادیث صحیحہ کا انکار کرتے چلے جاتے ہیں۔حالانکہ آئمہ عظام کی اپنی سیرتیں اور ان کے اقوال اس معاملے میں انتہائی صاف اور بے میل ہیں۔بطورمثال امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔اذا صح الحديث فهو مذهبي(حاشیہ ابن عابدین1/68)صحیح حدیث میرا مذہب ہے۔(لا يحل لا حد ان ياخذ بقولنا ما لم يعلم من اين اخذنا)الاانتقال فی فضائل الثلاثہ الائمۃ من الفقہاء الا فک عبدالبر) کسی کو روا نہیں کہ ہمارا قول اختیار کرے۔جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہم نے اسے کہاں سے لیا ہے۔ایک قول کے الفاظ یوں ہیں ۔(حرام علي من لم يعرف دليلي ان يفتني بكلامي) جس شخص کو میری دلیل معلوم نہ ہو اسے میرے قول پر فتویٰ دینا حرام ہے۔ایسے ہی دیگر آئمہ کرام کے اقوال بھی اس مفہوم میں ثابت ہیں۔2۔ان احادیث کی رو سے عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت ہے۔مگر شرط یہ ہے کہ با پردہ ہوں۔ خوشبو اور دیگر زیب وزینت سے مبرا ہوں۔مگر اللہ تعالیٰ اصلاح حال فرمائے۔صورت حال واقعتا ً خطرناک ہے۔3۔ان احادیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے۔کہ شوہر اپنی بیوی کو حج یا عمر ہ کے سفر سے نہیں روک سکتا۔ کیونکہ یہ سفر مسجد حرام کی طرف ہوتا ہے۔اور یہ تمام مساجد سے افضل ہے۔ اور حج اور عمرہ شرعی فرائض میں سے ہیں۔اس لئے استطاعت کی صورت میں خاوند کو بیوی کا یہ جائز اور شرعی مطالبہ اولین فرصت میں پورا کرنے کا اہمتام کرنا چاہیے۔ 1۔حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک اہم مسئلہ واضح فرمایا ہے۔کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں۔کہ رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مقابلے میں اپنی سوچ اور فہم واستدلال کو اہمیت دے۔ اس پر اصرار میں کفر کا اندیشہ ہے۔قرآن مجید میں ہے۔(وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّـهُ وَرَسُولُهُ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ ۗ)(الاحزاب ۔36) کسی بھی مومن مرد عورت کو حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کررسول ﷺ کسی معاملے کافیصلہ فرمادیں تو انھیں اپنے معاملے کا اختیار رہے۔ افسوس ہے ایسے مسلمان کہلوانے والوں پر جو اپنے زوق ومزاج عادات ورسم رواج اور اپنے امام کے قول پر ایسے سخت ہوتے ہیں۔کہ آیات قرآنیہ کی تاویل اور احادیث صحیحہ کا انکار کرتے چلے جاتے ہیں۔حالانکہ آئمہ عظام کی اپنی سیرتیں اور ان کے اقوال اس معاملے میں انتہائی صاف اور بے میل ہیں۔بطورمثال امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔اذا صح الحديث فهو مذهبي(حاشیہ ابن عابدین1/68)صحیح حدیث میرا مذہب ہے۔(لا يحل لا حد ان ياخذ بقولنا ما لم يعلم من اين اخذنا)الاانتقال فی فضائل الثلاثہ الائمۃ من الفقہاء الا فک عبدالبر) کسی کو روا نہیں کہ ہمارا قول اختیار کرے۔جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہم نے اسے کہاں سے لیا ہے۔ایک قول کے الفاظ یوں ہیں ۔(حرام علي من لم يعرف دليلي ان يفتني بكلامي) جس شخص کو میری دلیل معلوم نہ ہو اسے میرے قول پر فتویٰ دینا حرام ہے۔ایسے ہی دیگر آئمہ کرام کے اقوال بھی اس مفہوم میں ثابت ہیں۔2۔ان احادیث کی رو سے عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت ہے۔مگر شرط یہ ہے کہ با پردہ ہوں۔ خوشبو اور دیگر زیب وزینت سے مبرا ہوں۔مگر اللہ تعالیٰ اصلاح حال فرمائے۔صورت حال واقعتا ً خطرناک ہے۔3۔ان احادیث سے یہ استدلال بھی کیا گیا ہے۔کہ شوہر اپنی بیوی کو حج یا عمر ہ کے سفر سے نہیں روک سکتا۔ کیونکہ یہ سفر مسجد حرام کی طرف ہوتا ہے۔اور یہ تمام مساجد سے افضل ہے۔ اور حج اور عمرہ شرعی فرائض میں سے ہیں۔اس لئے استطاعت کی صورت میں خاوند کو بیوی کا یہ جائز اور شرعی مطالبہ اولین فرصت میں پورا کرنے کا اہمتام کرنا چاہیے۔