Book - حدیث 534

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ فِي الْأَذَانِ قَبْلَ دُخُولِ الْوَقْتِ حسن حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ بُرْقَانَ، عَنْ شَدَّادٍ مَوْلَى عِيَاضِ بْنِ عَامِرٍ، عَنْ بِلَالٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ: >لَا تُؤَذِّنْ حَتَّى يَسْتَبِينَ لَكَ الْفَجْرُ هَكَذَا< وَمَدَّ يَدَيْهِ عَرْضًا. قَالَ أَبو دَاود: شَدَّادٌ مَوْلَى عِيَاضٍ لَمْ يُدْرِكْ بِلَالًا.

ترجمہ Book - حدیث 534

کتاب: نماز کے احکام ومسائل باب: قبل از وقت اذان کہہ دی جائے تو؟ شداد مولیٰ عیاض بن عامر ، سیدنا بلال ؓ سے راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا ” جب تک فجر اس طرح نمایاں نہ ہو جایا کرے ، اذان نہ کہا کرو ۔ “ اور آپ ﷺ نے اطراف عرض میں اپنے دونوں ہاتھوں کو پھیلا کر اشارہ فرمایا ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ شداد مولیٰ عیاض نے سیدنا بلال ؓ کو نہیں پایا ۔
تشریح : 1۔ فجر دو طرح کی ہوتی ہے پہلی کو فجر کاذب اور دوسری کو فجر صادق کہتے ہیں۔صحیح ابن خزیمہ ار مستدرک حاکم میں ہے۔ کہ حضر ت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرو ی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! فجر کی دو قسمیں ہیں۔ایک فجر جس میں کھانا حرام اور نماز (نماز فجر) حلال ہوتی ہے۔ اور وہ دوسری وہ ہے جس میں نماز (نماز فجر)حرام اور کھانا (سحری کا) حلال ہوتا ہے۔ مستدرک حاکم میں ہے کہ وہ (فجر صادق) جس میں کھانا حرام ہوتا ہے افق میں طویل ہوتی ہے۔ اور دوسری( فجرکاذب) یہ بھیڑیے کی دم کی طرح فضا میں بلند ہوتی ہے۔ (صحیح ابن خذیمہ حدیث 356۔مستدرک حاکم 1/191)2۔ نماز کا وقت ہونے سے پہلے اذان نہیں صحیح نہیں ہے۔ہاں اگر غلطی سے تھوڑا سا فرق ہو تو اذان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔لیکن وقفہ اگر بہت زیادہ ہو تو ازان دہرائی جائے۔اور پہلی کے متلق اعلان کردیا جائے۔ کہ یہ غلطی سے ہوئی ہے۔خیال رہے کہ نماز فجر کی اذان کے بارے میں کچھ اصحاب الحدیث کا میلان یہ ہے کہ یہ فجر کاذب ہی کہی جائے۔تاکہ صبح صادق ہوتے ہی نماز کھڑی کی جاسکے اور وہ اندھیرے میں پڑھی جائے۔ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی وہ حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا! تمھیں بلال کی اذان سحری کھانے سے ہرگز نہ ر وکے۔بے شک وہ رات میں اذان کہتے ہیں۔ تاکہ تمہارا قیام کرنے والا متنبہ ہوجائے۔ اور سونے والا جاگ جائے (صحیح بخاری۔الازان باب الاذان قبل الفجر حدیث 621) اس کے قائل امام مالک۔اوزاعی۔شافعی ۔احمد ۔اسحاق۔ہیں۔(خطابی) مگر بخار ی مسلم کی یہ روایت حقیقت کو نکھارتی ہے۔کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا۔اور حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا۔بلال رات میں ازان کہتے ہیں تو کھائو حتیٰ کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔اور (یہ نابینا تھے) اور اس وقت تک اذان نہ کہتے تھے۔ جب تک انھیں بتا نہ دیا جاتا کہ صبح ہوگئی صبح ہوگئی۔(صحیح بخاری حدیث 617۔صحیح مسلم حدیث 380۔381)مقصد یہ ہے طلوع ہونے ہی پر فجر کی اذان کہنا راحج ہے۔ 1۔ فجر دو طرح کی ہوتی ہے پہلی کو فجر کاذب اور دوسری کو فجر صادق کہتے ہیں۔صحیح ابن خزیمہ ار مستدرک حاکم میں ہے۔ کہ حضر ت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مرو ی ہے۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا! فجر کی دو قسمیں ہیں۔ایک فجر جس میں کھانا حرام اور نماز (نماز فجر) حلال ہوتی ہے۔ اور وہ دوسری وہ ہے جس میں نماز (نماز فجر)حرام اور کھانا (سحری کا) حلال ہوتا ہے۔ مستدرک حاکم میں ہے کہ وہ (فجر صادق) جس میں کھانا حرام ہوتا ہے افق میں طویل ہوتی ہے۔ اور دوسری( فجرکاذب) یہ بھیڑیے کی دم کی طرح فضا میں بلند ہوتی ہے۔ (صحیح ابن خذیمہ حدیث 356۔مستدرک حاکم 1/191)2۔ نماز کا وقت ہونے سے پہلے اذان نہیں صحیح نہیں ہے۔ہاں اگر غلطی سے تھوڑا سا فرق ہو تو اذان کے اعادہ کی ضرورت نہیں۔لیکن وقفہ اگر بہت زیادہ ہو تو ازان دہرائی جائے۔اور پہلی کے متلق اعلان کردیا جائے۔ کہ یہ غلطی سے ہوئی ہے۔خیال رہے کہ نماز فجر کی اذان کے بارے میں کچھ اصحاب الحدیث کا میلان یہ ہے کہ یہ فجر کاذب ہی کہی جائے۔تاکہ صبح صادق ہوتے ہی نماز کھڑی کی جاسکے اور وہ اندھیرے میں پڑھی جائے۔ان کی دلیل حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی وہ حدیث ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا! تمھیں بلال کی اذان سحری کھانے سے ہرگز نہ ر وکے۔بے شک وہ رات میں اذان کہتے ہیں۔ تاکہ تمہارا قیام کرنے والا متنبہ ہوجائے۔ اور سونے والا جاگ جائے (صحیح بخاری۔الازان باب الاذان قبل الفجر حدیث 621) اس کے قائل امام مالک۔اوزاعی۔شافعی ۔احمد ۔اسحاق۔ہیں۔(خطابی) مگر بخار ی مسلم کی یہ روایت حقیقت کو نکھارتی ہے۔کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا۔اور حضرت ابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔نبی کریمﷺ نے فرمایا۔بلال رات میں ازان کہتے ہیں تو کھائو حتیٰ کہ ابن ام مکتوم اذان دیں۔اور (یہ نابینا تھے) اور اس وقت تک اذان نہ کہتے تھے۔ جب تک انھیں بتا نہ دیا جاتا کہ صبح ہوگئی صبح ہوگئی۔(صحیح بخاری حدیث 617۔صحیح مسلم حدیث 380۔381)مقصد یہ ہے طلوع ہونے ہی پر فجر کی اذان کہنا راحج ہے۔