Book - حدیث 523

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا سَمِعَ الْمُؤَذِّنَ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ عَنِ ابْنِ لَهِيعَةَ وَحَيْوَةَ وَسَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: >إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ، ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ, فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِيَ الْوَسِيلَةَ, فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ، لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ تَعَالَى، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، فَمَنْ سَأَلَ اللَّهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ عَلَيْهِ الشَّفَاعَةُ<.

ترجمہ Book - حدیث 523

کتاب: نماز کے احکام ومسائل باب: مؤذن کو سنے تو کیا کہے؟ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓا بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو سنا ، آپ ﷺ فرماتے تھے ، جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے ، پھر مجھ پر درود پڑھو ۔ تحقیق جس نے بھی مجھ پر ایک بار درود پڑھا ، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل کرتا ہے ، پھر میرے لیے اللہ سے وسیلہ طلب کرو ، بلاشبہ یہ ( وسیلہ ) جنت میں ایک منزل کا نام ہے جو اللہ کے کسی بندے کو ملے گی اور مجھے امید ہے کہ وہ میں ہی ہوں گا ۔ سو جس نے میرے لیے اللہ سے وسیلہ طلب کیا اس کے لیے شفاعت حلال ہو گئی ۔
تشریح : 1۔جواب اذان کا حکم استحباب پر محمول ہے ۔اور شرعی عذر کے علاوہ تمام کیفیتوں میں اس کا جواب دینا چاہیے۔حدث۔جنابت۔اور حیض۔اس سے مانع نہیں ہیں۔نیز اقامت کا جواب بھی اس سے ماخوذ ہے۔(امام نووی) 2۔جواب ہر کلمہ پر دینا چاہیے نہ کہ اذان مکمل ہونے پر تاہم ساتھ ساتھ جواب دینے میں کوئی معقول رکاوٹ ہو تو آخر میں اذان کا مکمل جواب دے کر دعایئں پڑھ لے۔دعوت عمل میں ترغیب وتشویش کا پہلو پیش نظر رکھناچاہیے۔نبی کریم ﷺ نے درود پڑھنے کا اجر اسی پہلو سے ارشاد فرمایا ہے۔4۔اعمال میں اخلاص شرط ہے۔ ملحوظہ۔تعجب ہے کہ بدعتی لوگ اپنی دعائوں میں رسول اللہ ﷺ کے غیر مشروع وسیلے پر اصرار کرتے ہیں۔حالانکہ رسول اللہ ﷺ اپنی امت سے مطالبہ فرما رہے ہیں۔ کے میر لئے وسیلے کا اللہ سے سوال کرو۔ 1۔جواب اذان کا حکم استحباب پر محمول ہے ۔اور شرعی عذر کے علاوہ تمام کیفیتوں میں اس کا جواب دینا چاہیے۔حدث۔جنابت۔اور حیض۔اس سے مانع نہیں ہیں۔نیز اقامت کا جواب بھی اس سے ماخوذ ہے۔(امام نووی) 2۔جواب ہر کلمہ پر دینا چاہیے نہ کہ اذان مکمل ہونے پر تاہم ساتھ ساتھ جواب دینے میں کوئی معقول رکاوٹ ہو تو آخر میں اذان کا مکمل جواب دے کر دعایئں پڑھ لے۔دعوت عمل میں ترغیب وتشویش کا پہلو پیش نظر رکھناچاہیے۔نبی کریم ﷺ نے درود پڑھنے کا اجر اسی پہلو سے ارشاد فرمایا ہے۔4۔اعمال میں اخلاص شرط ہے۔ ملحوظہ۔تعجب ہے کہ بدعتی لوگ اپنی دعائوں میں رسول اللہ ﷺ کے غیر مشروع وسیلے پر اصرار کرتے ہیں۔حالانکہ رسول اللہ ﷺ اپنی امت سے مطالبہ فرما رہے ہیں۔ کے میر لئے وسیلے کا اللہ سے سوال کرو۔