Book - حدیث 5180

كِتَابُ النَّومِ بَابُ كَمْ مَرَّةً يُسَلِّمُ الرَّجُلُ فِي الِاسْتِئْذَانِ صحیح حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ عَنْ يَزِيدَ بْنِ خُصَيْفَةَ عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ كُنْتُ جَالِسًا فِي مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ الْأَنْصَارِ فَجَاءَ أَبُو مُوسَى فَزِعًا فَقُلْنَا لَهُ مَا أَفْزَعَكَ قَالَ أَمَرَنِي عُمَرُ أَنْ آتِيَهُ فَأَتَيْتُهُ فَاسْتَأْذَنْتُ ثَلَاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي فَرَجَعْتُ فَقَالَ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَأْتِيَنِي قُلْتُ قَدْ جِئْتُ فَاسْتَأْذَنْتُ ثَلَاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لِي وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ ثَلَاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَلْيَرْجِعْ قَالَ لَتَأْتِيَنَّ عَلَى هَذَا بِالْبَيِّنَةِ فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ لَا يَقُومُ مَعَكَ إِلَّا أَصْغَرُ الْقَوْمِ قَالَ فَقَامَ أَبُو سَعِيدٍ مَعَهُ فَشَهِدَ لَهُ

ترجمہ Book - حدیث 5180

كتاب: سونے سے متعلق احکام ومسائل باب: اجازت طلب کرتے ہوئے آدمی کتنی بار السلام علیکم کہے ؟ سیدنا ابو سعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں انصار کی ایک مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ گھبرائے گھبرائے سے آئے ۔ ہم نے ان سے پوچھا : آپ گھبرائے ہوئے کیوں ہیں ؟ تو انہوں نے بتایا کہ مجھے سیدنا عمر ؓ نے بلوایا تھا کہ ان کے پاس جاؤں ۔ میں ان کے ہاں گیا اور تین بار اجازت طلب کی مگر مجھے اجازت نہیں دی گئی ، تو میں واپس ہونے لگا ۔ تو انہوں نے کہا : کیا وجہ تھی کہ تم میرے پاس نہیں آئے ؟ میں نے ان سے کہا کہ میں آیا تھا اور تین بار اجازت مانگی مگر نہیں دی گئی ۔ اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے ” تم میں سے جب کوئی تین بار اجازت مانگے اور اسے اجازت نہ دی جائے تو چاہیے کہ وہ لوٹ آئے ۔ “ تو انہوں نے ( سیدنا عمر ؓ نے ) کہا ہے : تمہیں اپنے اس بیان پر گواہ پیش کرنا پڑے گا ۔ تو سیدنا ابوسعید ؓ نے کہا : تمہارے ساتھ قوم کا کوئی چھوٹا بچہ بھی جا سکتا ہے ۔ ( وہ اس حدیث کے صحیح ہونے کی گواہی دے سکتا ہے ) چنانچہ سیدنا ابوسعید ؓ ان کے ساتھ گئے اور سیدنا ابوموسیٰ ؓ کے حق میں گواہی دی ۔
تشریح : "1۔اجازت طلب کرنے کے لئے اصل شرعی ادب اسلام علیکم کہنا ہے اور تین بار سلام کہہ کر اجازت مانگی جائے ۔ اسی پر دستک دینے یا گھنٹی بجانے کو قیاس کرنا چاہیے ۔اس سے زیادہ خلاف ادب ہے ،نہ معلوم گھر والا کسی خاص کام میں مشغول ہو یا آرام کر رہا ہو ،تو اسے پریشان نہ کیا جائے ۔ علاوہ ازیں دستک دینے یا گھنٹی بجانے میں بھی بے ادبی یا بد تمیزی کا مظاہرہ نہ کیا جائے ۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اتنی زور سے دستک دیتے ہیں کہ اڑوس پروس کے لوگوں کا سکون بھی بر باد ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح بعض لوگ گھنٹی اس طرح تسلسل سے بجاتے ہیں جیسے انہوں نے مردوں کو زندہ کرنا یا بہروں کو سنانا ہے یہ بے ہوگیاں ہماری اخلاقی پستی کی غماز ہیں ۔ 2 : اجازت یا جواب نہ ملنے پر بلاوجہ ناراض انہیں ہونا چاہیے ،بلکہ واپس آجانا چاہیے ۔ 3 :حضرت عمر رضی اللہ احادیث رسول کی روایت میں اس لئے شدید تھے کہ لوگ کہیں یقین واعتماد کے بغیر رسول ﷺکی طرف سے نسبت نہ کرنے لگیں اوراللہ انہیں جزائے خیر دے یہ ان کی بہت بڑی دانائی کی سختی تھی ۔" "1۔اجازت طلب کرنے کے لئے اصل شرعی ادب اسلام علیکم کہنا ہے اور تین بار سلام کہہ کر اجازت مانگی جائے ۔ اسی پر دستک دینے یا گھنٹی بجانے کو قیاس کرنا چاہیے ۔اس سے زیادہ خلاف ادب ہے ،نہ معلوم گھر والا کسی خاص کام میں مشغول ہو یا آرام کر رہا ہو ،تو اسے پریشان نہ کیا جائے ۔ علاوہ ازیں دستک دینے یا گھنٹی بجانے میں بھی بے ادبی یا بد تمیزی کا مظاہرہ نہ کیا جائے ۔ بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے کہ وہ اتنی زور سے دستک دیتے ہیں کہ اڑوس پروس کے لوگوں کا سکون بھی بر باد ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح بعض لوگ گھنٹی اس طرح تسلسل سے بجاتے ہیں جیسے انہوں نے مردوں کو زندہ کرنا یا بہروں کو سنانا ہے یہ بے ہوگیاں ہماری اخلاقی پستی کی غماز ہیں ۔ 2 : اجازت یا جواب نہ ملنے پر بلاوجہ ناراض انہیں ہونا چاہیے ،بلکہ واپس آجانا چاہیے ۔ 3 :حضرت عمر رضی اللہ احادیث رسول کی روایت میں اس لئے شدید تھے کہ لوگ کہیں یقین واعتماد کے بغیر رسول ﷺکی طرف سے نسبت نہ کرنے لگیں اوراللہ انہیں جزائے خیر دے یہ ان کی بہت بڑی دانائی کی سختی تھی ۔"