كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ فِي الرَّجُلِ يُؤَذِّنُ وَيُقِيمُ آخَرُ ضعیف حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ غَانِمٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ يَعْنِي الْأَفْرِيقِيَّ أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ نُعَيْمٍ الْحَضْرَمِيَّ أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ الْحَارِثِ الصُّدَائِيَّ، قَالَ: لَمَّا كَانَ أَوَّلُ أَذَانِ الصُّبْحِ، أَمَرَنِي- يَعْنِي: النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-، فَأَذَّنْتُ فَجَعَلْتُ أَقُولُ: أُقِيمُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَجَعَلَ يَنْظُرُ إِلَى نَاحِيَةِ الْمَشْرِقِ إِلَى الْفَجْرِ، فَيَقُولُ: >لَا<, حَتَّى إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ، نَزَلَ فَبَرَزَ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَيَّ، وَقَدْ تَلَاحَقَ أَصْحَابُهُ،- يَعْنِي: فَتَوَضَّأَ-، فَأَرَادَ بِلَالٌ أَنْ يُقِيمَ، فَقَالَ لَهُ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:َ >إِنَّ أَخَا صُدَاءٍ هُوَ أَذَّنَ، وَمَنْ أَذَّنَ فَهُوَ يُقِيمُ<. قَالَ: فَأَقَمْتُ.
کتاب: نماز کے احکام ومسائل
باب: یہ مسئلہ کہ ایک شخص اذان کہے اور دوسرا اقامت ( تکبیر کہے )
سیدنا زیاد بن حارث صدائی ؓ کا بیان ہے کہ جب صبح کی پہلی اذان کا وقت ہوا تو نبی کریم ﷺ نے مجھے حکم دیا تو میں نے اذان کہی ۔ پھر میں کہنے لگا ، اے اللہ کے رسول ! اقامت کہوں ؟ مگر آپ ﷺ مشرق کی جانب فجر کو دیکھتے اور فرماتے ” نہیں ۔ “ حتیٰ کہ جب فجر ( اچھی طرح ) طلوع ہو گئی تو آپ ﷺ اپنی سواری سے اترے اور وضو کیا ، پھر آپ ﷺ میری طرف آئے اور اس اثنا میں آپ ﷺ کے صحابہ بھی آپ کو آ ملے ( برز سے مراد ہے ) ، آپ نے وضو کیا ۔ سیدنا بلال ؓ نے اقامت کہنے کا ارادہ کیا ۔ تو نبی کریم ﷺ نے بلال ؓ سے فرمایا ” اس صدائی نے اذان کہی ہے اور جو اذان کہے وہی اقامت کہے ۔ “ چنانچہ میں نے اقامت کہی ۔
تشریح :
اس باب کی مذکورہ تینوں روایتیں ضعیف ہیں۔اس لئے ان سے کسی مسئلے کا اثبات نہیں ہوتا ۔لیکن بعض شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ موذن ہی اقامت کہے تو مناسب ہے تاہم اگر دوسرا اقامت کہے تو کوئی حرج نہیں۔(عون المعبود۔نیل الاوطار)
اس باب کی مذکورہ تینوں روایتیں ضعیف ہیں۔اس لئے ان سے کسی مسئلے کا اثبات نہیں ہوتا ۔لیکن بعض شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ موذن ہی اقامت کہے تو مناسب ہے تاہم اگر دوسرا اقامت کہے تو کوئی حرج نہیں۔(عون المعبود۔نیل الاوطار)