Book - حدیث 5113

كِتَابُ النَّومِ بَابٌ فِي الرَّجُلِ يَنْتَمِي إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ صحیح حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عُثْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ، قَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ, أَنَّهُ قَالَ: >مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ- وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ- فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ<. قَالَ: فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرَةَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ؟! فَقَالَ: سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ، وَوَعَاهُ قَلْبِي مِنْ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. - قَالَ عَاصِمٌ: فَقُلْتُ: يَا أَبَا عُثْمَانَ! لَقَدْ شَهِدَ عِنْدَكَ رَجُلَانِ, أَيُّمَا رَجُلَيْنِ؟ فَقَالَ: أَمَّا أَحَدُهُمَا, فَأَوَّلُ مَنْ رَمَى بِسَهْمٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ- أَوْ فِي الْإِسْلَامِ -يَعْنِي: سَعْدَ بْنَ مَالِكٍ-، وَالْآخَرُ, قَدِمَ مِنَ الطَّائِفِ فِي بِضْعَةٍ وَعِشْرِينَ رَجُلًا عَلَى أَقْدَامِهِمْ...، فَذَكَرَ فَضْلًا. قَالَ النُّفَيْلِيُّ حَيْثُ حَدَّثَ بِهَذَا الْحَدِيثِ وَاللَّهِ إِنَّهُ عِنْدِي أَحْلَى مِنَ الْعَسَلِ يَعْنِي قَوْلَهُ، حَدَّثَنَا وَحَدَّثَنِي قَالَ أَبُو عَلِيٍّ: وَسَمِعْتُ أَبَا دَاوُدَ يَقُولُ سَمِعْتُ أَحْمَدَ يَقُولُ لَيْسَ لِحَدِيثِ أَهْلِ الْكُوفَةِ نُورٌ قَالَ وَمَا رَأَيْتُ مِثْلَ أَهْلِ الْبَصْرَةِ كَانُوا تَعَلَّمُوهُ مِنْ شُعْبَةَ.

ترجمہ Book - حدیث 5113

كتاب: سونے سے متعلق احکام ومسائل باب: غلام کسی اور کو اپنا مالک بتائے یا بیٹا کسی اور کو اپنا باپ بتائے سیدنا سعد بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ میرے کانوں نے محمد ﷺ سے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا ” جس نے اپنے آپ کو کسی اور کا بیٹا بتایا جبکہ وہ جانتا ہو کہ یہ ( دوسرا ) اس کا باپ نہیں ہے ، تو جنت اس پر حرام ہے ۔ ) ابوعثمان نہدی کہتے ہیں پھر میں سیدنا ابوبکرہ ؓ سے ملا ، تو میں نے انہیں یہ حدیث بیان کی ، تو انہوں نے ( تصدیق کرتے ہوئے ) کہا اسے محمد ﷺ سے میرے کانوں نے سنا اور میرے دل نے یاد رکھا ہے ۔ عاصم ( احول ) نے بیان کیا : میں نے ( اپنے شیخ ) ابوعثمان سے کہا کہ آپ کے سامنے دو آدمیوں نے گواہی دی ہے ، وہ کیسے آدمی ہیں ؟ انہوں نے کہا : ان میں سے ایک تو وہ ہے جس نے اللہ کی راہ ، یا کہا ، اسلام میں سب سے پہلے تیر مارا ، یعنی سیدنا سعد بن مالک ؓ ۔ اور دوسرا ( سیدنا ابوبکرہ ؓ ) وہ ہے جو طائف سے پیدل چل کر آیا تھا اور ان لوگوں کی تعداد بیس سے زیادہ تھی اور ان کی فضیلت بیان کی ۔ امام ابوداؤد ؓ بیان کرتے ہیں کہ نفیلی نے کہا : چونکہ شیخ نے یہ حدیث «حدثنا» اور «حدثني» کے الفاظ سے بیان کی ہے تو یہ مجھے شہد سے بھی پیاری ہے ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے تھے کہ میں نے امام احمد بن حنبل ؓ سے سنا ، فرماتے تھے : کوفیوں کی حدیث میں نور نہیں ۔ اور کہا کہ میں نے اہل بصرہ جیسا کسی کو نہیں پایا ۔ انہوں نے شعبہ سے علم ( حدیث ) حاصل کیا تھا ۔
تشریح : 1۔اہل جاہلیت دوسرے کے بچوں کو اپنا منہ بولا بیٹا (متنبیٰ) بنالیتے تھے اورپھر اسے حقیقی بیتے والے حقوق دیتے تھے۔اسی طرح وہ بچے بھی اپنی پرورش کرنے والوں کو اپنا باپ باور کراتے تھے۔اسلام میں نسب بدلنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔متنبیٰ تو بنایا جاسکتا ہے۔مگر حقیقی اولاد یا حقیقی ماں باپ والے حقوق جاری نہیں ہوسکتے بالغ ہونے پر مشروع پروہ کیاکرایا جائے گا۔اور رشتہ ناطا بھی ہوسکتا ہے۔جیسے کہ سورۃاحزاب میں یہ مسائل بیان ہوئے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ)(الاحزاب۔5) انہیں ان کےباپوں (کے نسب) سے پکارو۔اللہ کے نزدیک یہی بات انصاف کی ہے۔ اور فرمایا۔(ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ)(الاحزاب ۔4) اللہ نے تمہارے پالکوں کو تمہارا بیٹا نہیں بنایا تاہم مجازا اور پیارسے دوسرے کے بچے کوبیٹا کہنا جائز ہے۔2۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی جرح اہل کوفہ کے بارے میں کہ ان کی حدیث میں نور نہیں سے مراد یہ ہ کہ یہ لوگ احادیث کی اسانید میں قدر اہمتمام نہ کرتے تھے۔ جو اہل حجاز کا خاصہ تھا۔تاہم ان اہل کوفہ میں بھی ایک بڑی تعداد حافظہ اورحجۃ محدثین کی ہے۔رحمۃ اللہ علیہ ۔3۔جس طرح لوگوں کواپنا نسب بدلناحرام ہے ایسے ہی کسی غلام کا اپنی نسبت بدل لینا حرام ہے۔ 1۔اہل جاہلیت دوسرے کے بچوں کو اپنا منہ بولا بیٹا (متنبیٰ) بنالیتے تھے اورپھر اسے حقیقی بیتے والے حقوق دیتے تھے۔اسی طرح وہ بچے بھی اپنی پرورش کرنے والوں کو اپنا باپ باور کراتے تھے۔اسلام میں نسب بدلنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔متنبیٰ تو بنایا جاسکتا ہے۔مگر حقیقی اولاد یا حقیقی ماں باپ والے حقوق جاری نہیں ہوسکتے بالغ ہونے پر مشروع پروہ کیاکرایا جائے گا۔اور رشتہ ناطا بھی ہوسکتا ہے۔جیسے کہ سورۃاحزاب میں یہ مسائل بیان ہوئے ہیں۔ارشاد باری تعالیٰ ہے۔( ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّـهِ)(الاحزاب۔5) انہیں ان کےباپوں (کے نسب) سے پکارو۔اللہ کے نزدیک یہی بات انصاف کی ہے۔ اور فرمایا۔(ۚ وَمَا جَعَلَ أَدْعِيَاءَكُمْ أَبْنَاءَكُمْ ۚ)(الاحزاب ۔4) اللہ نے تمہارے پالکوں کو تمہارا بیٹا نہیں بنایا تاہم مجازا اور پیارسے دوسرے کے بچے کوبیٹا کہنا جائز ہے۔2۔امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کی جرح اہل کوفہ کے بارے میں کہ ان کی حدیث میں نور نہیں سے مراد یہ ہ کہ یہ لوگ احادیث کی اسانید میں قدر اہمتمام نہ کرتے تھے۔ جو اہل حجاز کا خاصہ تھا۔تاہم ان اہل کوفہ میں بھی ایک بڑی تعداد حافظہ اورحجۃ محدثین کی ہے۔رحمۃ اللہ علیہ ۔3۔جس طرح لوگوں کواپنا نسب بدلناحرام ہے ایسے ہی کسی غلام کا اپنی نسبت بدل لینا حرام ہے۔