كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الشِّعرِ صحیح حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي خَلَفٍ وَأَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الْمَعْنَى، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ, عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَعِيدٍ، قَالَ: مَرَّ عُمَرُ بِحَسَّانَ- وَهُوَ يُنْشِدُ فِي الْمَسْجِدِ- فَلَحَظَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: قَدْ كُنْتُ أُنْشِدُ وَفِيهِ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنْكَ.
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
باب: شعر و شاعری کا بیان
جناب سعید بن مسیب ؓ نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن خطاب ؓ ، سیدنا حسان ؓ کے پاس سے گزرے ، جبکہ وہ مسجد ( مسجد نبوی ) میں شعر پڑھ رہے تھے ، تو سیدنا عمر ؓ نے انہیں تیز نظروں سے دیکھا تو انہوں نے جواب دیا ۔ بلاشبہ میں اس ( مسجد ) میں شعر پڑھا کرتا تھا اور اس میں وہ عظیم ہستی موجود ہوتی تھی جو آپ سے کہیں زیادہ افضل تھی ۔
تشریح :
مسجد میں دین اور اخلاقی موضوعات پر مشتمل اشعار کا پڑھنا جائز ہے۔2۔مگر یہ حقیقت بھی برمحل ہے۔ کہ شرعی مزاج شعروشاعری سے کوئی زیادہ مناسبت نہیں رکھتا۔اسی وجہ سے سیدناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہکے شعر پڑھنے کو ناپسنددیدگی کی نظر سے دیکھا۔3۔رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں کسی بڑے سے بڑے صالح متقی اور مصلح کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔4۔کسی صاحب فضل سے اگر کہیں فکر وعمل میں اختلافی صورت در پیش ہو تو اس کا جواب نہایت ادب واخلاق اوردلیل سے دیا جانا چاہیے۔3۔کوئی ادنیٰ اگر شرعی دلیل وحجت میں قوی ہو تو اس کے قبول کرلینے میں کسی بھی صاحب فضل کو عارنہیں ہونی چاہیے۔
مسجد میں دین اور اخلاقی موضوعات پر مشتمل اشعار کا پڑھنا جائز ہے۔2۔مگر یہ حقیقت بھی برمحل ہے۔ کہ شرعی مزاج شعروشاعری سے کوئی زیادہ مناسبت نہیں رکھتا۔اسی وجہ سے سیدناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہکے شعر پڑھنے کو ناپسنددیدگی کی نظر سے دیکھا۔3۔رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں کسی بڑے سے بڑے صالح متقی اور مصلح کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔4۔کسی صاحب فضل سے اگر کہیں فکر وعمل میں اختلافی صورت در پیش ہو تو اس کا جواب نہایت ادب واخلاق اوردلیل سے دیا جانا چاہیے۔3۔کوئی ادنیٰ اگر شرعی دلیل وحجت میں قوی ہو تو اس کے قبول کرلینے میں کسی بھی صاحب فضل کو عارنہیں ہونی چاہیے۔