كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُتَشَدِّقِ فِي الْكَلَامِ صحیح حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ, أَنَّهُ قَالَ: قَدِمَ رَجُلَانِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَخَطَبَا، فَعَجِبَ النَّاسُ- يَعْنِي: لِبَيَانِهِمَا-، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >إِنَّ مِنَ الْبَيَانِ لَسِحْرًا- أَوْ إِنَّ بَعْضَ الْبَيَانِ لَسِحْرٌ<.
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
باب: منہ بنا کر تکلف سے باتیں کرنا
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ نے بیان کیا کہ مشرق کی جانب سے دو آدمی آئے اور انہوں نے خطاب کیا تو لوگوں کو ان کے اسلوب خطاب و بیان پر بڑا تعجب ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” بلاشبہ بعض بیان جادو ہوتے ہیں ۔ “
تشریح :
یہ حدیث جوامع الکلم کی ایک عمدہ مثال ہے۔ علمائے اسلام کے ایک طبقے نے اسے بیان کی طرح قراردیاہے اور دوسرے نے اس سے مذمت کے معنی سمجھے ہیں جبکہ حقیقت ان دونوں کے بین بین ہے۔ گفتگو خطاب یا تحریر میں بیان اپنے عرفی اوراحطلاحی ہردومعافی میں ایک ساحب علم کے لیے انتہائی اہم عمدہ اور مطلوب صفت ہے۔تمام انبیائے کرام علیہ وسلم اس صف سے موصوف تھے اور یہی وجہ تھی کہ لوگ انہیں ساحر اور ان کےمضامین دعوت کو سحر کہتے تھے کہ اس میں ان کے لئے انکار کو کوئی چارا نہ تھا۔ اور یہی معاملہ وارثین انبیاء علمائے کرام کا ہے کہ وہ اس صف کودعوت دین میں استعمال کریں اور نوآموز اس کی بخوبی مشق بہم پہنچائیں۔ لیکن جہاں معاملہ حد سے بڑھ کر محض مبالغہ آرائی زبان آوری اور حقائق کو مسخ کرنے اور الفاظ سے کھیلنے کا ہو تو، نا جائز اور قابل مذمت ہے جیسے اوپر کی حدیث میں گزرا ہے۔
یہ حدیث جوامع الکلم کی ایک عمدہ مثال ہے۔ علمائے اسلام کے ایک طبقے نے اسے بیان کی طرح قراردیاہے اور دوسرے نے اس سے مذمت کے معنی سمجھے ہیں جبکہ حقیقت ان دونوں کے بین بین ہے۔ گفتگو خطاب یا تحریر میں بیان اپنے عرفی اوراحطلاحی ہردومعافی میں ایک ساحب علم کے لیے انتہائی اہم عمدہ اور مطلوب صفت ہے۔تمام انبیائے کرام علیہ وسلم اس صف سے موصوف تھے اور یہی وجہ تھی کہ لوگ انہیں ساحر اور ان کےمضامین دعوت کو سحر کہتے تھے کہ اس میں ان کے لئے انکار کو کوئی چارا نہ تھا۔ اور یہی معاملہ وارثین انبیاء علمائے کرام کا ہے کہ وہ اس صف کودعوت دین میں استعمال کریں اور نوآموز اس کی بخوبی مشق بہم پہنچائیں۔ لیکن جہاں معاملہ حد سے بڑھ کر محض مبالغہ آرائی زبان آوری اور حقائق کو مسخ کرنے اور الفاظ سے کھیلنے کا ہو تو، نا جائز اور قابل مذمت ہے جیسے اوپر کی حدیث میں گزرا ہے۔