كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يَتَكَنَّى وَلَيْسَ لَهُ وَلَدٌ صحیح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُ عَلَيْنَا وَلِي أَخٌ صَغِيرٌ يُكْنَى: أَبَا عُمَيْرٍ، وَكَانَ لَهُ نُغَرٌ يَلْعَبُ بِهِ، فَمَاتَ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، فَرَآهُ حَزِينًا، فَقَالَ: >مَا شَأْنُهُ؟<، قَالُوا، مَاتَ نُغَرُهُ! فَقَالَ: >يَا أَبَا عُمَيْرٍ! مَا فَعَلَ النُّغَيْرُ؟.
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
باب: اولاد نہ ہونے کے باوجود کنیت رکھنا
سیدنا انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے ہاں تشریف لایا کرتے تھے اور میرے چھوٹے بھائی نے جس کی کنیت ” ابوعمیر “ تھی ، اس نے ایک چڑیا رکھی ہوئی تھی جس سے وہ کھیلا کرتا تھا ۔ ( اس چڑیا کو عربی میں «نغير» کہتے تھے ) تو وہ مر گئی ۔ ایک دن نبی کریم ﷺ اس کے پاس گئے اور اسے غمگین پایا تو پوچھا ” اسے کیا ہوا ہے ؟ “ ہم نے بتایا کہ اس کی چڑیا «نغير» مر گئی ہے ۔ تو آپ ﷺ نے اس سے فرمایا ” اے ابوعمیر ! کیا کر گیا ( تیرا ) «نغير» ؟ “
تشریح :
محدثین نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ مسبحع مقفی کلام جائز ہےاور جائز حدود میں منسی مزاح کی بات میں کو ئی حرج نہیں۔ اور بچوں کے ساتھ ملاطفت حسن اخلاق کا حصہ ہے۔ چھوٹی عمر میں کنیت رکھنا جائز ہے اور جانور پال لینا اس کو پنجرے میں رکھنا اور ان سے کھیلنا بھی مباح ہے۔(امام خطابی رحمۃاللہ)
محدثین نے اس حدیث سے استنباط کیا ہے کہ مسبحع مقفی کلام جائز ہےاور جائز حدود میں منسی مزاح کی بات میں کو ئی حرج نہیں۔ اور بچوں کے ساتھ ملاطفت حسن اخلاق کا حصہ ہے۔ چھوٹی عمر میں کنیت رکھنا جائز ہے اور جانور پال لینا اس کو پنجرے میں رکھنا اور ان سے کھیلنا بھی مباح ہے۔(امام خطابی رحمۃاللہ)