كِتَابُ الْأَدَبِ بَابٌ فِي تَغْيِيرِ الْأَسْمَاءِ صحيح دون قوله تسموا بأسماء الأنبياء حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعِيدٍ الطَّالْقَانِيُّ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُهَاجِرِ الْأَنْصَارِيُّ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَقِيلُ ابْنُ شَبِيبٍ، عَنْ أَبِي وَهْبٍ الْجُشَمِيِّ- وَكَانَتْ لَهُ صُحْبَةٌ-، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >تَسَمَّوْا بِأَسْمَاءِ الْأَنْبِيَاءِ، وَأَحَبُّ الْأَسْمَاءِ إِلَى اللَّهِ: عَبْدُ اللَّهِ وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ، وَأَصْدَقُهَا: حَارِثٌ وَهَمَّامٌ، وَأَقْبَحُهَا: حَرْبٌ وَمُرَّةُ<.
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
باب: ( غلط ) نام بدل دینے کا بیان
سیدنا ابو وہب جشمی ؓ سے روایت ہے اور انہیں صحابی ہونے کا شرف حاصل ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” انبیاء کے نام رکھا کرو اور اﷲ کو سب ناموں میں زیادہ محبوب عبداللہ اور عبدالرحمٰن ہیں ۔ سب سے بڑھ کر واقعیت سے قریب یہ نام ہیں ، حارث ( کھیتی باڑی کرنے والا ) اور ہمام ( رنج و فکر میں پڑا ہوا ) اور یہ نام سب سے برے ہیں ‘ حرب ( لڑاکا ) اور مرہ ( کڑوا ) ۔ “
تشریح :
1 ) عبداللہ اور عبد الرحمن جیسے ناموں میں اللہ عزوجل کی طرف بندگی کی نسبت اور اسکا اظہار ہے تو سعادت ہے اس بندے کے لیئے جسے اُٹھتے بیٹھتے موقع بے موقع اس عالی نسب سے پکارا جائے۔ اس کے بالمقابل انسانوں میں کون ہوگا جسے اسبابِ رزق کی فکر نہ ہو یا کسی طرح کے رنج و الم سے محفوظ ہو؟ اس لیئے حارث اور حمام ایسے نام ہیں جو حقیقت سے قریب تر ہیں۔ نیز بقول بعض نام کا اپنے مسمی پر کچھ معنوی اثر بھی ہوتا ہے اس لیئے اچھے نام رکھنے چاہیئں۔ حرب (لڑاکا) اور مرہ (کڑوہ) بہت برے نام ہیں لہذا ان سے بچنا چاہیئے۔
2) مذکورہ روایت کی تحقیق کی بابت ہمارے فاضل محقق لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداَ ضعیف ہے ، تاہم اس کے شواہد ہیں۔ لیکن اس شواہد کی تفصیل ذکر نہیں کی وہ شواہد کس درجے کے ہیں۔۔۔۔ مذکورہ بالا روایت کے الفاظ (احب االا اسماء عبدالله و الرحمن) صحیح مسلم (حدیث 2132) اور سنن ابو داؤد (حدیث 4949 ) میں صحیح سند سے مروی ہیں جنہیں خود اُنھوں نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ نیز روایت کے باقی الفاظ: (تسمو با سماء الا نبياء) کے الفاظ کے سوا صحیح ہے جیسا کہ شیخ البانی ؒ نے ذکر کیا ہے۔ تفصیل کے لیئے دیکھئے: (الصحیحة حديث 904)
1 ) عبداللہ اور عبد الرحمن جیسے ناموں میں اللہ عزوجل کی طرف بندگی کی نسبت اور اسکا اظہار ہے تو سعادت ہے اس بندے کے لیئے جسے اُٹھتے بیٹھتے موقع بے موقع اس عالی نسب سے پکارا جائے۔ اس کے بالمقابل انسانوں میں کون ہوگا جسے اسبابِ رزق کی فکر نہ ہو یا کسی طرح کے رنج و الم سے محفوظ ہو؟ اس لیئے حارث اور حمام ایسے نام ہیں جو حقیقت سے قریب تر ہیں۔ نیز بقول بعض نام کا اپنے مسمی پر کچھ معنوی اثر بھی ہوتا ہے اس لیئے اچھے نام رکھنے چاہیئں۔ حرب (لڑاکا) اور مرہ (کڑوہ) بہت برے نام ہیں لہذا ان سے بچنا چاہیئے۔
2) مذکورہ روایت کی تحقیق کی بابت ہمارے فاضل محقق لکھتے ہیں کہ یہ روایت سنداَ ضعیف ہے ، تاہم اس کے شواہد ہیں۔ لیکن اس شواہد کی تفصیل ذکر نہیں کی وہ شواہد کس درجے کے ہیں۔۔۔۔ مذکورہ بالا روایت کے الفاظ (احب االا اسماء عبدالله و الرحمن) صحیح مسلم (حدیث 2132) اور سنن ابو داؤد (حدیث 4949 ) میں صحیح سند سے مروی ہیں جنہیں خود اُنھوں نے بھی صحیح قرار دیا ہے۔ نیز روایت کے باقی الفاظ: (تسمو با سماء الا نبياء) کے الفاظ کے سوا صحیح ہے جیسا کہ شیخ البانی ؒ نے ذکر کیا ہے۔ تفصیل کے لیئے دیکھئے: (الصحیحة حديث 904)