كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ مَتَى يُؤْمَرُ الْغُلَامُ بِالصَّلَاةِ صحیح حَدَّثَنَا مُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ يَعْنِي الْيَشْكُرِيَّ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، عَنْ سَوَّارٍ أَبِي حَمْزَةَ قَالَ أَبو دَاود وَهُوَ سَوَّارُ بْنُ دَاوُدَ أَبُو حَمْزَةَ الْمُزَنِيُّ الصَّيْرَفِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم:َ >مُرُوا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ، وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرٍ، وَفَرِّقُوا بَيْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ<.
کتاب: نماز کے احکام ومسائل
باب: بچے کو کس عمر میں نماز کا حکم دیا جائے؟
جناب عمرو بن شعیب اپنے والد ( شعیب ) سے اور وہ ( شعیب ) اپنے دادا ( عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ ) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اپنے بچوں کو جب وہ سات سال کے ہو جائیں تو نماز کا حکم دو اور جب دس سال کے ہو جائیں ( اور نہ پڑھیں ) تو انہیں اس پر مارو اور ان کے بسر جدا جدا کر دو ۔ “
تشریح :
اس حدیث سے کئی اہم مسائل معلوم ہوتے ہیں۔ مثلا یہ کہ جب بچے دس سال کی عمر کو پہنچ جایئں تو ان کے بستر الگ الگ کردیئے جایئں۔ چاہے وہ حقیقی بھائی ہوں یا بہنیں۔ یا بھائی بہن ملے جلے۔اس حکم شریعت کی حکمت۔۔۔واللہ اعلم۔۔یہ ہوسکتی ہے۔کہ شعور کی ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو ایسی مجلس ومحفل سے دور کردیا جائے۔جس سے ان کے خیالات اور عادات واطور کے بگڑنے اور پراگندہ ہونے کا خطرہ ہو۔گویا کہ یہ نبوی حکم منکرات کے اثر سے بچنے اور اولاد کو بچانے کا بہترین زریعہ ہے۔ نیز اس حدیث سے نماز کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔نماز کے سوا کوئی دوسرا ایسا شرعی عمل نہیں ہے کہ جس کے بارے میں یہ حکم ہو کہ سات سال کی عمر کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اس کے کرنے کی تاکید کی جائے۔اوردس سال کی عمر کو پہنچ کر نا کرنے کی صورت میں مارا پیٹا جائے۔ نما ز نہ پڑھنے والے شخص کے بارے میں متقدمین السلاف اہل علم کے اقوالدرج زیل ہیں۔امام مالک اور امام شافعی کہتے ہیں کہ (یقتل تار ک الصلواۃ)یعنی تارک صلواۃ کو قتل کردیا جائے۔مکحول حماد بن یزیز اور وکیع بن جراح کہتے ہیں۔ اس سے توبہ کرائی جائے اگر وہ توبہ کرلے درست ورنہ قتل کردیا جائے۔ امام زہری کہتے ہیں وہ فاسق ہے اس کو سخت سزا دے کر جیل میں ڈال دیا جائے۔ ابراہیم نخعی ۔ایوب سختیانی۔ عبد اللہ بن مبارک۔امام احمد بن حنبل۔ اسحاق بن راہویہ۔اور علماء کی ایک جماعت کاقول یہ ہے جو شخص شرعی عذر کے بغیر نماز نہیں پڑھتا۔حتیٰ کہ نماز کاوقت ختم ہوجاتا ہے۔تو ایسا شخص کافر ہے۔(عون المعبود۔2/115 طبع جدید)
اس حدیث سے کئی اہم مسائل معلوم ہوتے ہیں۔ مثلا یہ کہ جب بچے دس سال کی عمر کو پہنچ جایئں تو ان کے بستر الگ الگ کردیئے جایئں۔ چاہے وہ حقیقی بھائی ہوں یا بہنیں۔ یا بھائی بہن ملے جلے۔اس حکم شریعت کی حکمت۔۔۔واللہ اعلم۔۔یہ ہوسکتی ہے۔کہ شعور کی ابتدائی عمر ہی سے بچوں کو ایسی مجلس ومحفل سے دور کردیا جائے۔جس سے ان کے خیالات اور عادات واطور کے بگڑنے اور پراگندہ ہونے کا خطرہ ہو۔گویا کہ یہ نبوی حکم منکرات کے اثر سے بچنے اور اولاد کو بچانے کا بہترین زریعہ ہے۔ نیز اس حدیث سے نماز کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔نماز کے سوا کوئی دوسرا ایسا شرعی عمل نہیں ہے کہ جس کے بارے میں یہ حکم ہو کہ سات سال کی عمر کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو اس کے کرنے کی تاکید کی جائے۔اوردس سال کی عمر کو پہنچ کر نا کرنے کی صورت میں مارا پیٹا جائے۔ نما ز نہ پڑھنے والے شخص کے بارے میں متقدمین السلاف اہل علم کے اقوالدرج زیل ہیں۔امام مالک اور امام شافعی کہتے ہیں کہ (یقتل تار ک الصلواۃ)یعنی تارک صلواۃ کو قتل کردیا جائے۔مکحول حماد بن یزیز اور وکیع بن جراح کہتے ہیں۔ اس سے توبہ کرائی جائے اگر وہ توبہ کرلے درست ورنہ قتل کردیا جائے۔ امام زہری کہتے ہیں وہ فاسق ہے اس کو سخت سزا دے کر جیل میں ڈال دیا جائے۔ ابراہیم نخعی ۔ایوب سختیانی۔ عبد اللہ بن مبارک۔امام احمد بن حنبل۔ اسحاق بن راہویہ۔اور علماء کی ایک جماعت کاقول یہ ہے جو شخص شرعی عذر کے بغیر نماز نہیں پڑھتا۔حتیٰ کہ نماز کاوقت ختم ہوجاتا ہے۔تو ایسا شخص کافر ہے۔(عون المعبود۔2/115 طبع جدید)