Book - حدیث 494

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ مَتَى يُؤْمَرُ الْغُلَامُ بِالصَّلَاةِ صحیح حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى يَعْنِي ابْنَ الطَّبَّاعِ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >مُرُوا الصَّبِيَّ بِالصَّلَاةِ إِذَا بَلَغَ سَبْعَ سِنِينَ، وَإِذَا بَلَغَ عَشْرَ سِنِينَ فَاضْرِبُوهُ عَلَيْهَا<.

ترجمہ Book - حدیث 494

کتاب: نماز کے احکام ومسائل باب: بچے کو کس عمر میں نماز کا حکم دیا جائے؟ عبدالملک بن ربیع بن سبرہ عن ابیہ عن جدہ ( سیدنا سبرہ بن معبد جہنی ؓ ) کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ” بچہ جب سات سال کا ہو جائے تو اسے نماز کا حکم دو اور جب دس سال کا ہو جائے ( اور نہ پڑھے ) تو اسے مارو ۔ “
تشریح : اس حکم کا تعلق بچے اور بچی دونوں سے ہے۔اور مقصد یہ ہے کہ شعور کی عمر کو پہنچتے ہی شریعت کے اوامر ونواہی اوردیگر آداب کی تلقین ومشق کا عمل شروع ہوجانا چاہیے۔ تاکہ بلوغت کو پہنچتے پہنچتے اس کے خوب عادی ہوجایئں۔2۔اسلام میں جسمانی سزا کا تصور موجود ہے۔مگر بے تکا نہیں ہے۔پہلے تین سال تک تو ایک طرح سے والدین کا امتحان ہے کہ زبانی تلقین سے کام لیں اور خود عملی نمونہ پیش کریں۔ اس کے بعد سزا بھی دیں مگر ایسی جوزخمی نہ کرے۔اور چہرے پر بھی نہ مارا جائے۔کیونکہ چہرے پر مارنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔(سنن ابی دائود حدیث نمبر 4493) اس حکم کا تعلق بچے اور بچی دونوں سے ہے۔اور مقصد یہ ہے کہ شعور کی عمر کو پہنچتے ہی شریعت کے اوامر ونواہی اوردیگر آداب کی تلقین ومشق کا عمل شروع ہوجانا چاہیے۔ تاکہ بلوغت کو پہنچتے پہنچتے اس کے خوب عادی ہوجایئں۔2۔اسلام میں جسمانی سزا کا تصور موجود ہے۔مگر بے تکا نہیں ہے۔پہلے تین سال تک تو ایک طرح سے والدین کا امتحان ہے کہ زبانی تلقین سے کام لیں اور خود عملی نمونہ پیش کریں۔ اس کے بعد سزا بھی دیں مگر ایسی جوزخمی نہ کرے۔اور چہرے پر بھی نہ مارا جائے۔کیونکہ چہرے پر مارنے سے رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے۔(سنن ابی دائود حدیث نمبر 4493)