Book - حدیث 4937

كِتَابُ الْأَدَبِ بَابُ اللَّعِبِ بِالْبَنَاتِ حسن صحيح حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو، عَنْ يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ: رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا " فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، قَالَتْ: فَوَاللَّهِ إِنِّي لَعَلَى أُرْجُوحَةٍ بَيْنَ عِذْقَيْنِ فَجَاءَتْنِي أُمِّي فَأَنْزَلَتْنِي وَلِي جُمَيْمَةٌ " وَسَاقَ الْحَدِيثَ

ترجمہ Book - حدیث 4937

کتاب: آداب و اخلاق کا بیان باب: گڑیوں سے کھیلنے کا بیان یحییٰ بن عبدالرحمٰن بن حاطب بیان کرتے ہیں کہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا نے کہا : ہم مدینے آئے اور بنو حارث بن خزرج کے ہاں ہمارا قیام ہوا ۔ کہتی ہیں ‘ اﷲ کی قسم ! میں کھجور کی دو لکڑیوں میں لگے ایک جھولے پر تھی کہ میری والدہ آئیں ‘ تو انہوں نے مجھے اس سے اتارا ، اور میرے بال چھوٹے چھوٹے تھے ۔ اور پوری حدیث بیان کی ۔
تشریح : آج کل کے بعض جدید مفکرین اور بزعمِ خویش نویس مزاج مجددین کو ان احادیث اور صغر سنی (چھوٹی عمر) کے اس نکاح اور شادی پر بہت اعتراض ہے۔ وہ مختلف انداز سے اسکا انکار کرتے ہیں حالانکہ اس انکار کی کوئی حقیقی وجہ نہیں ہے۔ ان لوگوں کو چاہیئے کہ طبی، معاشرتی، علاقائی، اور جغرافیائی احوال و ظروف کا دقیق نظری سے مطالعہ کریں تو واضح ہوگا کہ بعض احوال اور بعض علاقوں میں اس عمر کی لڑکیوں کا بالغ ہو جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے اور پھر عائلی زندگی کے فطری مراحل سے گزرنا ان کے لیئے کوئی انہونی بات نہیں ہوتی۔ اس واقعے میں بالخصو ص یہ بات پیشِ نظر رہے کہ یہ نکاح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو رسو ل اللہ ﷺ کے ہاں مزید قربت و شرف دینے کے لیئے عمل میں لایا گیا تھا۔ تا کہ انہیں رسو ل اللہ ﷺ کے ہاں وقت بے وقت آنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ اور انکا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ربط و ضبط مزید گہرا ہو جائے۔ اور پھر اس نکاح کی بنیاد وہ خواب تھے جو تواتر کے ساتھ نبی ﷺ کو دکھلائے گئے تھے۔ یہ خواب اس بات کی طرف اشارہ تھے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھما کا نکاح نبی ﷺ کے ساتھ مقدر کر دیا گیا ہے۔ یہ احادیث صحیح اور واقعہ تاریخی شرعی اور فقہی اعتبار سے بالکل صحیح اور عین حق ہے اسکا انکار در حقیقت انکارِ حدیث کا زینہ ہے۔ آج کل کے بعض جدید مفکرین اور بزعمِ خویش نویس مزاج مجددین کو ان احادیث اور صغر سنی (چھوٹی عمر) کے اس نکاح اور شادی پر بہت اعتراض ہے۔ وہ مختلف انداز سے اسکا انکار کرتے ہیں حالانکہ اس انکار کی کوئی حقیقی وجہ نہیں ہے۔ ان لوگوں کو چاہیئے کہ طبی، معاشرتی، علاقائی، اور جغرافیائی احوال و ظروف کا دقیق نظری سے مطالعہ کریں تو واضح ہوگا کہ بعض احوال اور بعض علاقوں میں اس عمر کی لڑکیوں کا بالغ ہو جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے اور پھر عائلی زندگی کے فطری مراحل سے گزرنا ان کے لیئے کوئی انہونی بات نہیں ہوتی۔ اس واقعے میں بالخصو ص یہ بات پیشِ نظر رہے کہ یہ نکاح حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو رسو ل اللہ ﷺ کے ہاں مزید قربت و شرف دینے کے لیئے عمل میں لایا گیا تھا۔ تا کہ انہیں رسو ل اللہ ﷺ کے ہاں وقت بے وقت آنے میں کوئی دشواری پیش نہ آئے۔ اور انکا رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ربط و ضبط مزید گہرا ہو جائے۔ اور پھر اس نکاح کی بنیاد وہ خواب تھے جو تواتر کے ساتھ نبی ﷺ کو دکھلائے گئے تھے۔ یہ خواب اس بات کی طرف اشارہ تھے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھما کا نکاح نبی ﷺ کے ساتھ مقدر کر دیا گیا ہے۔ یہ احادیث صحیح اور واقعہ تاریخی شرعی اور فقہی اعتبار سے بالکل صحیح اور عین حق ہے اسکا انکار در حقیقت انکارِ حدیث کا زینہ ہے۔