Book - حدیث 4860

كِتَابُ الْأَدَبِ بَابٌ فِي رَفْعِ الْحَدِيثِ مِنْ الْمَجْلِسِ ضعيف حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ، عَنْ إِسْرَائِيلَ عَنِ الْوَلِيدِ قَالَ أَبُو دَاوُد: وَنَسَبَهُ لَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حُسَيْنِ ابْنِ مُحَمَّدٍ، عَنْ إِسْرَائِيلَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ قَالَ الْوَلِيدُ ابْنُ أَبِي هِشَامٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ زَائِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >لَا يُبَلِّغُنِي أَحَدٌ مِنْ أَصْحَابِي عَنْ أَحَدٍ شَيْئًا, فَإِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَخْرُجَ إِلَيْكُمْ وَأَنَا سَلِيمُ الصَّدْرِ<.

ترجمہ Book - حدیث 4860

کتاب: آداب و اخلاق کا بیان باب: شکایتیں کرنا بہت برا عمل ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” کوئی شخص مجھے میرے صحابہ کی بابت کوئی بات نہ پہنچائے ۔ میں چاہتا ہوں کہ میں تمہارے پاس آؤں ‘ تو میرا سینہ صاف ہو ( کسی کے متعلق میرے دل میں کدورت نہ ہو ) ۔ “
تشریح : انسان کو جب کسی اپنے پرائے کی کو ئی غلط بات پہنچتی ہے تو وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ زبان یا عمل سے خواہ اسکا اظہار نہ بھی کرے مگر دل میں ضرور اسکا اثر ہوتا ہے۔ اس لئے بلا وجہِ معقول کسی کی غلط بات دوسرے کے سامنے نہیں کرنی چاہیئے ۔ ہاں اگر شرعی ضرورت ہو۔ مثلاَ کسی واسطے سے اسکی نصیحت اور اصلاح مقصود ہو یا کسی کو متنبہ رکھنا مقصود ہو تا جائز ہے۔ یا وہ ازحد فاسق ، فاجر اور ظالم ہو۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالی ہے: برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالی پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے (النساء 148) علمائے اخلاق لکھتے ہیں کہ جو آدمی آپکے سامنے دوسروں پر تبصرے کرتا اور ان ی باتیں نقل کرتا ہے غالب گمان ہے کہ وہ آپکے متعلق بھی دوسروں کے ہاں باتیں کرتا ہوگااس لیئے ایسے آدمی کی اس عادت کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہییے۔ انسان کو جب کسی اپنے پرائے کی کو ئی غلط بات پہنچتی ہے تو وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ زبان یا عمل سے خواہ اسکا اظہار نہ بھی کرے مگر دل میں ضرور اسکا اثر ہوتا ہے۔ اس لئے بلا وجہِ معقول کسی کی غلط بات دوسرے کے سامنے نہیں کرنی چاہیئے ۔ ہاں اگر شرعی ضرورت ہو۔ مثلاَ کسی واسطے سے اسکی نصیحت اور اصلاح مقصود ہو یا کسی کو متنبہ رکھنا مقصود ہو تا جائز ہے۔ یا وہ ازحد فاسق ، فاجر اور ظالم ہو۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالی ہے: برائی کے ساتھ آواز بلند کرنے کو اللہ تعالی پسند نہیں فرماتا مگر مظلوم کو اجازت ہے (النساء 148) علمائے اخلاق لکھتے ہیں کہ جو آدمی آپکے سامنے دوسروں پر تبصرے کرتا اور ان ی باتیں نقل کرتا ہے غالب گمان ہے کہ وہ آپکے متعلق بھی دوسروں کے ہاں باتیں کرتا ہوگااس لیئے ایسے آدمی کی اس عادت کی حوصلہ افزائی نہیں کرنی چاہییے۔