Book - حدیث 486

كِتَابُ الصَّلَاةِ بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُشْرِكِ يَدْخُلُ الْمَسْجِدَ صحیح حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ شَرِيكِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي نَمِرٍ أَنَّهُ سَمِعَ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: دَخَلَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ، فَأَنَاخَهُ فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ عَقَلَهُ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّكُمْ مُحَمَّدٌ؟!- وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَّكِئٌ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ-، فَقُلْنَا لَهُ: هَذَا الْأَبْيَضُ الْمُتَّكِئُ، فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ! فَقَالَ لَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >قَدْ أَجَبْتُكَ<. فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: يَا مُحَمَّدُ! إِنِّي سَائِلُكَ... وَسَاقَ الْحَدِيثَ.

ترجمہ Book - حدیث 486

کتاب: نماز کے احکام ومسائل باب: کسی مشرک کا مسجد میں داخل ہونا سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا ‘ وہ اونٹ پر تھا ، اس نے اونٹ کو مسجد ( کے احاطے ) میں بٹھایا ، پھر اسے باندھا ، پھر کہا : تم میں سے ” محمد “ کون ہے ؟ جب کہ رسول اللہ ﷺ صحابہ کے درمیان ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔ ہم نے کہا کہ یہ جو گورا چٹا شخص ٹیک لگائے ہوئے ہیں ( یہی محمد ﷺ ہیں ) تو اس آدمی نے آپ سے کہا : اے ابن عبدالمطلب ! آپ نے فرمایا ” جواب دے رہا ہوں ۔ “ اس نے کہا : اے محمد ! میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں ، اور حدیث بیان کی ۔
تشریح : صحیح بخاری میں روایت مفصل آئی ہے۔اس نے کہا میرے پوچھنے میں کچھ ختگی ہو تو محسوس نہ فرمایئے گا۔آپ نے فرمایا پوچھو کیا پوچھتے ہو؟ میں تمھیں تمہارے اور تم سے پہہلوں کے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کہ کیا اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کوطرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔؟آپ نے فرمایا : ہاں بلا شبہ کہنے لگا میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا اللہ نے تمھیں دن اور رات میں پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے۔؟آپ نے فرمایا ! ہاں بلاشبہ کہنے لگا میں تم کواللہ کی قسم دیتا ہوں ۔کیا اللہ نے تم کو ہر سال اس مہینے کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔؟آپ نے فرمایا ۔ہاں بلاشبہ۔کہنے لگا میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے تم کو حکم دیا ہے کہ ہمارے اغنیاء سے آپ زکواۃ لیں۔اور ہمارے فقراء میں بانٹ دیں۔آپ نے فرمایا ۔ہاں بلاشبہ۔تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں۔ان باتوں پر جو آپ ﷺ لے کر آئے ہیں۔ اور میں اپنے پیچھے اپنی قوم کا نمائندہ ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔ او ر قبیلہ بن سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔(صحیح بخاری۔حدیث 63)2۔اس حدیث سے اور دیگر درج زیل احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ غیر مسلم یہود ونصاریٰ ہندو یا مجوسی وغیرہ کوئی بھی ہوں۔کسی بھی معقول ضرورت سے مسجدوں میں آسکتے ہیں۔البتہ قرآن مجید کی آیت کریمہ ( إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا)(توبہ ۔28) مشرکین نجس ہیں تو اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آنے پایئں اس سے مراد ان کی معنوی نجاست ہے۔یعنی ان کا عقیدہ نجس ہے۔اوراس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم ہے۔ کہ اب تک بیت اللہ پر کفار کا جو تسلط تھا۔ اسے توڑ دیا گیا ہے۔تو ائندہ کے لئے یہ لوگ اپنے کفریہ شعائر کے ساتھ یا ان کے اظہار کے لئے یہاں نہ آنے پایئں۔تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ بیت اللہ کی ظاہری ومعنوی طہارت وحفاظت کااہتمام کریں۔ صحیح بخاری میں روایت مفصل آئی ہے۔اس نے کہا میرے پوچھنے میں کچھ ختگی ہو تو محسوس نہ فرمایئے گا۔آپ نے فرمایا پوچھو کیا پوچھتے ہو؟ میں تمھیں تمہارے اور تم سے پہہلوں کے رب کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں۔ کہ کیا اللہ نے آپ کو تمام لوگوں کوطرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔؟آپ نے فرمایا : ہاں بلا شبہ کہنے لگا میں تمھیں اللہ کی قسم دیتا ہوں۔ کیا اللہ نے تمھیں دن اور رات میں پانچ نمازوں کا حکم دیا ہے۔؟آپ نے فرمایا ! ہاں بلاشبہ کہنے لگا میں تم کواللہ کی قسم دیتا ہوں ۔کیا اللہ نے تم کو ہر سال اس مہینے کے روزے رکھنے کا حکم دیا ہے۔؟آپ نے فرمایا ۔ہاں بلاشبہ۔کہنے لگا میں تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں کیا اللہ نے تم کو حکم دیا ہے کہ ہمارے اغنیاء سے آپ زکواۃ لیں۔اور ہمارے فقراء میں بانٹ دیں۔آپ نے فرمایا ۔ہاں بلاشبہ۔تو اس نے کہا میں ایمان لاتا ہوں۔ان باتوں پر جو آپ ﷺ لے کر آئے ہیں۔ اور میں اپنے پیچھے اپنی قوم کا نمائندہ ہوں۔ میرا نام ضمام بن ثعلبہ ہے۔ او ر قبیلہ بن سعد بن بکر سے تعلق رکھتا ہوں۔(صحیح بخاری۔حدیث 63)2۔اس حدیث سے اور دیگر درج زیل احادیث سے ثابت ہوتا ہے۔ کہ غیر مسلم یہود ونصاریٰ ہندو یا مجوسی وغیرہ کوئی بھی ہوں۔کسی بھی معقول ضرورت سے مسجدوں میں آسکتے ہیں۔البتہ قرآن مجید کی آیت کریمہ ( إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ فَلَا يَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا)(توبہ ۔28) مشرکین نجس ہیں تو اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ آنے پایئں اس سے مراد ان کی معنوی نجاست ہے۔یعنی ان کا عقیدہ نجس ہے۔اوراس آیت میں مسلمانوں کو تعلیم ہے۔ کہ اب تک بیت اللہ پر کفار کا جو تسلط تھا۔ اسے توڑ دیا گیا ہے۔تو ائندہ کے لئے یہ لوگ اپنے کفریہ شعائر کے ساتھ یا ان کے اظہار کے لئے یہاں نہ آنے پایئں۔تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ بیت اللہ کی ظاہری ومعنوی طہارت وحفاظت کااہتمام کریں۔