Book - حدیث 4843

كِتَابُ الْأَدَبِ بَابٌ فِي تَنْزِيلِ النَّاسِ مَنَازِلَهُمْ حسن حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الصَّوَّافُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ حُمْرَانَ، أَخْبَرَنَا عَوْفُ بْنُ أَبِي جَمِيلَةَ، عَنْ زِيَادِ بْنِ مِخْرَاقٍ، عَنْ أَبِي كِنَانَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ، وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِي عَنْهُ، وَإِكْرَامَ ذِي السُّلْطَانِ الْمُقْسِطِ<.

ترجمہ Book - حدیث 4843

کتاب: آداب و اخلاق کا بیان باب: ہر آدمی کے مقام و مرتبے کا خیال رکھنے کا بیان سیدنا ابوموسیٰ اشعری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” بلاشبہ بوڑھے مسلمان اور صاحب قرآن کی عزت کرنا جو اس میں غلو اور تقصیر سے بچتا ہو اور ( اسی طرح ) حاکم عادل کی عزت کرنا ‘ اللہ عزوجل کی عزت کرنے کا حصہ ہے ۔ “
تشریح : جس شخص کی جوانی اسلام میں گزری ہو اور بڑھاپا آگیا ہو تو وہ بندہ اللہ تعالی کے نزدیک بہت مکرم اور با عزت ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں انھیں وقار دیا جانا لازمی ہے۔ 2) صاحبِ قرآن یعنی حافظ ، قاری ، مدرس، مفسر اور داعی اسلام جو فی الواقع شرعی حدود کے پابند ہوں، تجاوز کریں نہ تقصیر کریں، انکا احترام بھی لازمی ہے۔ 3) حدود اللہ نافذ کرنے والے منصف حاکم کا بھی یہی حق ہے کہ اس کا اعزاز و اکرام کیا جائے۔ ان حضرات کی اہمیت کے پیشِ نظر ہے اللہ عزوجل نے ان کے اعزاز و اکرام کو اپنے اعزاز کا حصہ قرار دیا ہے۔ اور یہ بنا ن بطور تمثیل اور مبالغہ کے ہے۔ 4) یہ روایت بعض محقیقین کے نزدیک حسن درجے کی ہے۔ دیکھئے صحیح الجامع ، حدیث 2095 جس شخص کی جوانی اسلام میں گزری ہو اور بڑھاپا آگیا ہو تو وہ بندہ اللہ تعالی کے نزدیک بہت مکرم اور با عزت ہوتا ہے۔ اسلامی معاشرے میں انھیں وقار دیا جانا لازمی ہے۔ 2) صاحبِ قرآن یعنی حافظ ، قاری ، مدرس، مفسر اور داعی اسلام جو فی الواقع شرعی حدود کے پابند ہوں، تجاوز کریں نہ تقصیر کریں، انکا احترام بھی لازمی ہے۔ 3) حدود اللہ نافذ کرنے والے منصف حاکم کا بھی یہی حق ہے کہ اس کا اعزاز و اکرام کیا جائے۔ ان حضرات کی اہمیت کے پیشِ نظر ہے اللہ عزوجل نے ان کے اعزاز و اکرام کو اپنے اعزاز کا حصہ قرار دیا ہے۔ اور یہ بنا ن بطور تمثیل اور مبالغہ کے ہے۔ 4) یہ روایت بعض محقیقین کے نزدیک حسن درجے کی ہے۔ دیکھئے صحیح الجامع ، حدیث 2095