Book - حدیث 4796

كِتَابُ الْأَدَبِ بَابٌ فِي الْحَيَاءِ صحیح حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ إِسْحَاقَ بْنِ سُوَيْدٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ، وَثَمَّ بُشَيْرُ بْنُ كَعْبٍ فَحَدَّثَ عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >الْحَيَاءُ خَيْرٌ كُلُّهُ أَوْ قَالَ: الْحَيَاءُ كُلُّهُ خَيْرٌ<، فَقَالَ بُشَيْرُ بْنُ كَعْبٍ: إِنَّا نَجِدُ فِي بَعْضِ الْكُتُبِ, أَنَّ مِنْهُ سَكِينَةً وَوَقَارًا، وَمِنْهُ ضَعْفًا، فَأَعَادَ عِمْرَانُ الْحَدِيثَ، وَأَعَادَ بُشَيْرٌ الْكَلَامَ، قَالَ: فَغَضِبَ عِمْرَانُ حَتَّى احْمَرَّتْ عَيْنَاهُ، وَقَالَ: أَلَا أُرَانِي أُحَدِّثُكَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُحَدِّثُنِي عَنْ كُتُبِكَ؟! قَالَ: قُلْنَا: يَا أَبَا نُجَيْدٍ إِيهٍ إِيهِ!!

ترجمہ Book - حدیث 4796

کتاب: آداب و اخلاق کا بیان باب: صفت حیاء کا بیان جناب ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم سیدنا عمران بن حصین ؓ کے ساتھ تھے جبکہ وہاں بشیر بن کعب بھی تھے ( با کے ضمہ کے ساتھ ) سیدنا عمران بن حصین نے حدیث بیان کی ‘ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” حیاء سراسر خیر ہے ۔ “ بشیر بن کعب نے کہا : ہمیں کئی کتابوں میں ملتا ہے کہ بعض حیاء اطمینان اور وقار کی وجہ سے ہوتی ہے اور بعض حیاء کمزوری اور بزدلی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔ تو سیدنا عمران نے حدیث رسول دوبارہ دہرائی اور پھر بشیر نے بھی اپنی بات دہرا دی ۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمران ؓ اس قدر غصے میں آ گئے کہ ان کی آنکھیں سرخ ہو گئی اور بولے : میں تجھے رسول اللہ ﷺ کی حدیث سنا رہا ہوں اور تو مجھے اپنی کتابوں سے بتائے جا رہا ہے ۔ ہم نے کہا : اے ابونجید ! بس کیجئیے ۔ بس کیجئیے ۔ ( اسے یہ تنبیہ کافی ہے ) ۔
تشریح : ابو نجید حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ کی کنیت ہے۔ 2) حضرت محمد ﷺ کا فرمان اپنے ظاہر معانی میں جامع ومانع ہے لہذا کسی صاحبِ ایمان کو کسی طرح روا نہیں کہ آپ ﷺ کے فرمان کی بے مقصد تاویل کرے۔ 3) صاحبِ ایمان کو نصیحت کرتے ہوئے مناسب حد ت غصہ کرنا چاہیئے۔ حد سے زیادہ غصے کی وجہ سے بعض اوقات غلط نتائج نکلتے ہیں۔ ابو نجید حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ کی کنیت ہے۔ 2) حضرت محمد ﷺ کا فرمان اپنے ظاہر معانی میں جامع ومانع ہے لہذا کسی صاحبِ ایمان کو کسی طرح روا نہیں کہ آپ ﷺ کے فرمان کی بے مقصد تاویل کرے۔ 3) صاحبِ ایمان کو نصیحت کرتے ہوئے مناسب حد ت غصہ کرنا چاہیئے۔ حد سے زیادہ غصے کی وجہ سے بعض اوقات غلط نتائج نکلتے ہیں۔