Book - حدیث 4792

كِتَابُ الْأَدَبِ بَابٌ فِي حُسْنِ الْعِشْرَةِ حسن صحيح حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْروٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا, أَنَّ رَجُلًا اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: >بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ!<، فَلَمَّا دَخَلَ انْبَسَطَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَكَلَّمَهُ، فَلَمَّا خَرَجَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! لَمَّا اسْتَأْذَنَ قُلْتَ: >بِئْسَ أَخُو الْعَشِيرَةِ<، فَلَمَّا دَخَلَ انْبَسَطْتَ إِلَيْهِ؟ فَقَالَ: >يَا عَائِشَةُ! إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفَاحِشَ الْمُتَفَحِّشَ<.

ترجمہ Book - حدیث 4792

کتاب: آداب و اخلاق کا بیان باب: باہمی امور میں حسن اخلاق کا بیان ام المؤمنین سیدہ عائشہ ؓا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ کے ہاں آنے کی اجازت چاہی تو آپ ﷺ نے فرمایا ” کنبے کا بہت برا آدمی ہے ۔ “ پھر جب وہ آپ کے پاس آ گیا تو آپ نے اس کے ساتھ بڑی فراخدلی کے ساتھ باتیں کیں ۔ جب وہ چلا گیا تو میں نے عرض کیا : اے اﷲ کے رسول ! جب اس نے اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا ” کنبے کا برا آدمی ہے ۔ “ جب وہ آ گیا تو آپ نے اس کے ساتھ بڑی فراخدلی کے ساتھ باتیں کی ہیں ۔ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اے عائشہ ! بلاشبہ اﷲ تعالیٰ کسی بدگو ‘ تکلف سے بدگوئی کرنے والے سے محبت نہیں کرتا ۔ “ امام ابوداؤد ؓ سے نبی کریم ﷺ کے فرمان «بئس أخو العشيرة» کے معنی کی بابت سوال کیا گیا تو انہوں نے بیان کیا کہ یہ نبی کریم ﷺ کا خاصہ ہے ۔
تشریح : قاضی عیاض ؒ کہتے ہیں کہ یہ شخص عیینہ بن حسن فزاری تھا جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں مسلمان ہو اتھا مگر دورِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں مرتدین سے جا ملا اور پھر اسے قیدی بنا کر لایا گیا تھا۔ 2) علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص علی الاعلان فسق و فجور و ظلم کا مرتکب ہو تا ہے یا کسی بدعت کا داعی ہے اس کی غیبت کرنا جائز ہے۔ اور اس قسن کے لوگوں کے شر سے بچنے کے لیئے ان کے ساتھ مدارات یعنی رواداری کا معاملہ کرنا مباح ہے بشرطیکہ دین میں مُدَا ہَنت لازم نہ آتی ہو۔ 3) مدارات اور مُدَا ہَنت میں فرق یہ ہے کہ دینی یا دنیاوی فوائد کے لیئے کسی کے ساتھ اپنے شخصی اور دنیاوی حقوق نظر انداز کر دینا مدارات ہوتی ہے۔ یہ ایک جائز امر ہے بلکہ نعض دفع مستحب ہے۔ جبکہ مُدَا ہَنت یہ ہے کہ انسان کسی کے ساتھ محض دنیاوی مفادات کے لیئے دین کے تقاضوں کو نظر انداز کر دے۔ یہ کسی صورت میں جائز نہیں۔ قاضی عیاض ؒ کہتے ہیں کہ یہ شخص عیینہ بن حسن فزاری تھا جو رسول اللہ ﷺ کے دور میں مسلمان ہو اتھا مگر دورِ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ میں مرتدین سے جا ملا اور پھر اسے قیدی بنا کر لایا گیا تھا۔ 2) علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص علی الاعلان فسق و فجور و ظلم کا مرتکب ہو تا ہے یا کسی بدعت کا داعی ہے اس کی غیبت کرنا جائز ہے۔ اور اس قسن کے لوگوں کے شر سے بچنے کے لیئے ان کے ساتھ مدارات یعنی رواداری کا معاملہ کرنا مباح ہے بشرطیکہ دین میں مُدَا ہَنت لازم نہ آتی ہو۔ 3) مدارات اور مُدَا ہَنت میں فرق یہ ہے کہ دینی یا دنیاوی فوائد کے لیئے کسی کے ساتھ اپنے شخصی اور دنیاوی حقوق نظر انداز کر دینا مدارات ہوتی ہے۔ یہ ایک جائز امر ہے بلکہ نعض دفع مستحب ہے۔ جبکہ مُدَا ہَنت یہ ہے کہ انسان کسی کے ساتھ محض دنیاوی مفادات کے لیئے دین کے تقاضوں کو نظر انداز کر دے۔ یہ کسی صورت میں جائز نہیں۔