Book - حدیث 4768

كِتَابُ السُّنَّةِ بَابٌ فِي قِتَالِ الْخَوَارِجِ صحیح حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ أَبِي سُلَيْمَانَ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، قَالَ، أَخْبَرَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ الْجُهَنِيُّ, أَنَّهُ كَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِينَ كَانُوا مَعَ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَام- الَّذِينَ سَارُوا إِلَى الْخَوَارِجِ-، فَقَالَ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَام: أَيُّهَا النَّاسُ! إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: >يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَيْسَتْ قِرَاءَتُكُمْ إِلَى قِرَاءَتِهِمْ شَيْئًا، وَلَا صَلَاتُكُمْ إِلَى صَلَاتِهِمْ شَيْئًا، وَلَا صِيَامُكُمْ إِلَى صِيَامِهِمْ شَيْئًا، يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُونَ أَنَّهُ لَهُمْ وَهُوَ عَلَيْهِمْ، لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُونَ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، لَوْ يَعْلَمُ الْجَيْشُ الَّذِينَ يُصِيبُونَهُمْ مَا قُضِيَ لَهُمْ عَلَى لِسَانِ نَبِيِّهِمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَنَكَلُوا عَنِ الْعَمَلِ، وَآيَةُ ذَلِكَ أَنَّ فِيهِمْ رَجُلًا لَهُ عَضُدٌ وَلَيْسَتْ لَهُ ذِرَاعٌ، عَلَى عَضُدِهِ مِثْلُ حَلَمَةِ الثَّدْيِ عَلَيْهِ شَعَرَاتٌ بِيضٌ<. أَفَتَذْهَبُونَ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَأَهْلِ الشَّامِ، وَتَتْرُكُونَ هَؤُلَاءِ يَخْلُفُونَكُمْ فِي ذَرَارِيِّكُمْ وَأَمْوَالِكُمْ؟! وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَكُونُوا هَؤُلَاءِ الْقَوْمَ, فَإِنَّهُمْ قَدْ سَفَكُوا الدَّمَ الْحَرَامَ، وَأَغَارُوا فِي سَرْحِ النَّاسِ، فَسِيرُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ. قَالَ سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ: فَنَزَّلَنِي زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ مَنْزِلًا مَنْزِلًا، حَتَّى مَرَّ بِنَا عَلَى قَنْطَرَةٍ، قَالَ: فَلَمَّا الْتَقَيْنَا وَعَلَى الْخَوَارِجِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ الرَّاسِبِيُّ، فَقَالَ لَهُمْ: أَلْقُوا الرِّمَاحَ، وَسُلُّوا السُّيُوفَ مِنْ جُفُونِهَا، فَإِنِّي أَخَافُ أَنْ يُنَاشِدُوكُمْ كَمَا نَاشَدُوكُمْ يَوْمَ حَرُورَاءَ، قَالَ: فَوَحَّشُوا بِرِمَاحِهِمْ، وَاسْتَلُّوا السُّيُوفَ، وَشَجَرَهُمُ النَّاسُ بِرِمَاحِهِمْ، قَالَ: وَقَتَلُوا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضِهِمْ، قَالَ: وَمَا أُصِيبَ مِنَ النَّاسِ يَوْمَئِذٍ إِلَّا رَجُلَانِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: الْتَمِسُوا فِيهِمُ الْمُخْدَجَ، فَلَمْ يَجِدُوا، قَالَ: فَقَامَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِنَفْسِهِ حَتَّى أَتَى نَاسًا قَدْ قُتِلَ بَعْضُهُمْ عَلَى بَعْضٍ، فَقَالَ: أَخْرِجُوهُمْ، فَوَجَدُوهُ مِمَّا يَلِي الْأَرْضَ، فَكَبَّرَ، وَقَالَ: صَدَقَ اللَّهُ، وَبَلَّغَ رَسُولُهُ، فَقَامَ إِلَيْهِ عَبِيدَةُ السَّلْمَانِيُّ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ! وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، لَقَدْ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! فَقَالَ: إِي وَاللَّهِ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، حَتَّى اسْتَحْلَفَهُ ثَلَاثًا، وَهُوَ يَحْلِفُ.

ترجمہ Book - حدیث 4768

کتاب: سنتوں کا بیان باب: خوارج سے قتال کا بیان زید بن وہب جہنی نے بیان کیا کہ زید بن وہب جہنی نے بیان کیا کوہ سیدنا علی ؓ کے ساتھ اس لشکر میں شریک تھا جو خارجیوں کی طرف گیا تھا ۔ سیدنا علی ؓ نے فرمایا : لوگو ! میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ‘ آپ ﷺ فرماتے تھے ” میری امت میں ایسے لوگ ہوں گے جو قرآن پڑھتے ہوں گے ۔ تمہاری قرآت ان کی قرآت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہو گی ‘ نہ تمہاری نمازیں ان کی نمازوں کے مقابلے میں کچھ ہوں گی نہ تمہارے روزے ان کے روزوں کے مقابلے میں کچھ حیثیت رکھتے ہوں گے ‘ وہ قرآن پڑھتے ہوں گے اور سمجھیں گے کہ یہ ان کے حق میں دلیل اور تائید ہے ‘ حالانکہ وہ ان کے خلاف ہو گا ۔ ان کی نمازیں ان کی ہنسلیوں سے آگے نہیں بڑھیں گی ۔ اسلام سے ایسے گزر جائیں گے جیسے تیر اپنے شکار میں سے نکل جاتا ہے ۔ “ اگر اس لشکر کو جو ان ( خارجیوں ) کو قتل کرے گا ان فضائل کا علم ہو جائے جو اللہ نے ان کے نبی ﷺ کی زبانی ان کے لیے مقدر فرمائے ہیں تو وہ اسی پر تکیہ کر لیں اور ان ( خارجیوں ) کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک ایسا آدمی ہو گا جس کی کہنی سے اوپر کا بازو تو ہو گا ‘ کہنی سے نیچے کلائی نہیں ہو گی ۔ اوپر کے بازو کا آخر پستان کی بھٹنی کی طرح ہو گا ۔ اس پر سفید بال ہوں گے ۔ کیا بھلا تم لوگ معاویہ اور اہل شام کی طرف جانا چاہتے ہو اور ان ( خارجیوں ) کو اپنی اولادوں اور مال و اسباب میں پیچھے چھوڑ دینا چاہتے ہو ؟ اللہ کی قسم ! مجھے امید ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں ۔ ( جن کی خبر رسول اللہ ﷺ نے دی ) انہوں نے حرام خون بہایا اور لوگوں کے محفوظ علاقے ( جان ‘ عزت ‘ مال ) لوٹی ۔ چنانچہ اللہ کا نام لے کر ( ان کے مقابلے میں ) چلو ۔ سلمہ بن کہیل نے کہا کہ زید بن وہب مجھے منزل بمنزل لے کر چلتے گئے حتیٰ کہ ہم ایک پل سے گزرے ‘ پھر بتایا کہ جب ہم ان کے مقابل ہوئے اور خارجیوں کا سردار عبداللہ بن وہب راسبی تھا تو اس نے اپنے لوگوں سے کہا : نیزے پھینک دو اور تلواریں اپنی میانوں سے نکال لو ۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ تم سے اسی طرح مقابلہ کریں گے جیسے حروراء والے دن کیا تھا ۔ کہا : چنانچہ ان لوگوں نے اپنے نیزے پھینک دیے اور تلواریں کھینچ لیں تو لوگوں نے ان کو اپنے نیزوں سے چھلنی کرنا شروع کر دیا اور ان کو ایک دوسرے کے اوپر قتل کیا ۔ جبکہ سیدنا علی ؓ کے لشکر میں سے صرف دو آدمی شہید ہوئے ۔ تو سیدنا علی ؓ نے کہا : تلاش کرو ‘ ان میں ایک لنجا ہو گا ‘ مگر انہیں نہ ملا ۔ تو سیدنا علی ؓ خود اٹھے حتیٰ کہ ان میتوں کے پاس آئے جو ایک دوسرے پر قتل ہوئے تھے ۔ انہوں نے فرمایا : انہیں نکالو ۔ چنانچہ انہوں نے اسے پا لیا جو کہ سب سے نیچے زمین پر پڑا تھا ۔ سیدنا علی ؓ نے اللہ اکبر پکارا اور کہا : اللہ نے سچ فرمایا اور اس کے رسول ﷺ نے پہنچا دیا ۔ پس جناب عبیدہ سلمانی ان کی طرف کھڑے ہوئے اور کہا : اے امیر المؤمنین ! قسم اس اللہ کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں ! کیا یہ بیان آپ نے رسول اللہ ﷺ سے سنا تھا ؟ انہوں نے فرمایا : ہاں اللہ کی قسم ! جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ حتیٰ کہ انہوں نے تین بار قسم دی اور سیدنا علی ؓ نے بھی تین بار قسم سے جواب دیا ۔ امام ابوداؤد ؓ کہتے ہیں کہ امام مالک نے فرمایا : یہ علم کی اہانت ہے کہ عالم ہر پوچھنے والے کا جواب دینے لگے ۔ہ
تشریح : جو اعمال ایمان واخلاص اور تقوی وسنت کے مطابق نہ ہوں ،وہ مقدارمیں خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں ،اللہ کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں ۔ 2 :عام سیاسی مخالف اور دینی دشمن مقابلے میں ہوں تو مسلمان کو اپنی نظر دینی دشمن پر رکھنی چاہیے ۔ 3 :حضرت علی رضی اللہ وہ خلیفہ راشدتھےجنہوں نے خارجیوں کا قلع قمع کرنے میں سرتوڑکوشش فرمائی ۔ 4 :امام مالک کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت علی رضی اللہ نے سب کے سامنے ایک حقیقت واضح کرنے کے لئے بار بار قسم کے ساتھ جواب دیا ،یہ ضرورت کے مطابق تھا لیکن اس سے نہ سمجھ لیا جائے کہ کسی عام سی بات کو اس طرح کوئی پوچھے تو جواب دینا ضروری ہے ۔ جو اعمال ایمان واخلاص اور تقوی وسنت کے مطابق نہ ہوں ،وہ مقدارمیں خواہ کتنے ہی کیوں نہ ہوں ،اللہ کے ہاں ان کی کوئی قدر نہیں ۔ 2 :عام سیاسی مخالف اور دینی دشمن مقابلے میں ہوں تو مسلمان کو اپنی نظر دینی دشمن پر رکھنی چاہیے ۔ 3 :حضرت علی رضی اللہ وہ خلیفہ راشدتھےجنہوں نے خارجیوں کا قلع قمع کرنے میں سرتوڑکوشش فرمائی ۔ 4 :امام مالک کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح حضرت علی رضی اللہ نے سب کے سامنے ایک حقیقت واضح کرنے کے لئے بار بار قسم کے ساتھ جواب دیا ،یہ ضرورت کے مطابق تھا لیکن اس سے نہ سمجھ لیا جائے کہ کسی عام سی بات کو اس طرح کوئی پوچھے تو جواب دینا ضروری ہے ۔